پروفیسر گیر محمد اسحاق
عصر حاضر کی مسلسل بڑھتی ہوئی ضروریات، تقاضوں اور چیلنجوں سے پیدا ہونے والا سماجی، معاشی، جسمانی، جذباتی اور ذہنی تناؤ عام آبادی اور بالخصوص نوجوانوں کو بے یقینی، عدم تحفظ، عدم استحکام اورمغالطہ انگیزی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ نتیجے کے طور پرسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے کچھ ابھرتے ہوئے نوجوان اکثر مناسب رہنمائی اور نگرانی کی عدم موجودگی میں غلطیاں اور غلط فیصلے کر لیتے ہیں۔ ہم عمر گروپ کے دباؤ میں یا جانکاری کی کمی کی وجہ سے وہ بعض اوقات منشیات میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور آخر کاراس کے عادی بن جاتے ہیں۔ منشیات کے استعمال کی تاریک دنیا میں داخل ہوکر وہ یا تو ہم عمروں کے دباؤ میں یاتجسس اور بے تابی کے عالم میں عارضی ‘جوش’ کا تجربہ کرنے کیلئے اپنا سفر”تجربوں” سے شروع کرتے ہیں ۔ پھر وہ مصنوعی جوش برقرار رکھنے کیلئے “منشیات کا باقاعدہ استعمال کرنے والوں” میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو انہیں “خطرناک حد تک منشیات کے استعمال ‘‘کی طرف لے جاتا ہے اور آخر کار وہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر منشیات کے استعمال کے تابع ہو جاتے ہیں اور کل وقتی “منشیات کے عادی یا انحصار کرنے والوں” میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا، نوعمروں کو صحیح مرحلے پر مشکلات سے بچانا، سماجی و جذباتی سیکھنے کے عمل اور نفسیاتی بہبود کو فروغ دینا اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو یقینی بنانا عنفوان شباب اور سن بلوغت کے دوران ان کی صحت اور تندرستی کیلئے اہم ہے۔یہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سمیت تمام تعلیمی اداروں میں نفسیاتی مشیر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے جو نوجوانوں کی بات تحمل سے سن سکتے ہوں، ان کی ذہنی صحت کی ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہوں، انہیں پیشہ ورانہ نفسیاتی مشاورت کے ذریعے ذہنی دباؤ اور معمول کے رویوں سے انحراف پر قابو پانے کیلئے حکمت عملی پیش کر سکتے ہوں۔
ہائی سکول کی سطح سن ِ بلوغت کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے، جو بچوں کی زندگیوں میں ایک ہنگامہ خیز اور تبدیلی کا مرحلہ ہوتاہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب وہ مسائل، لوگوں، نظریات اورگرد وپیش کے بارے میں اپنی پسند، ناپسند، نقطہ نظر اور تاثرات رکھنے لگتے ہیں، اپنا نقطہ نظر اور اپنے فیصلے خود لینے کی خواہش پیدا کرتے ہیں۔ اس مرحلے پر یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ان کے تجسس، جوش اور توانائی کو مناسب رہنمائی اور مشاورت کے ذریعے صحیح سمت کی طرف لے جایا جائے، جس کی عدم موجودگی میں وہ منشیات،نشہ، بری صحبت، غیر قانونی سرگرمیوں اور بعض اوقات اپنے کیرئیر اور مستقبل کی زندگی پر اس کے برے اثرات کو سمجھے بغیر سماج دشمن عناصر کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ مزید برآں امتحانات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے، اعلیٰ فیصد نمبرات حاصل کرنے، سخت مقابلوں میں آگے بڑھنے اور معروف کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے کیلئے والدین کا دباؤ وہ بنیادی خدشات ہیں جن کا انہیں عام طور پر سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالات کو مزید خراب کرنے کیلئے معاشرے میں غیر منصفانہ تقابل اور غیر صحت مند مقابلوں کی روایات کے علاوہ والدین کی بے جا توقعات ان کے کمزور کندھوں پر اضافی بوجھ ڈالتی ہیں۔ والدین اکثر اپنے بچوں کی منفرد شخصیات اور چھپی ہوئی صلاحیتوں کو سراہنے میں ناکام رہتے ہیں اور اکثر انہیں میڈیکل اور انجینئرنگ کے داخلوں کیلئے ایک ایسی دوڑ کا حصہ بننے پر مجبور کرتے ہیں جس میں ان کی دلچسپی ہوتی ہی نہیں ہے۔ یہ سب اکثر بچوں میں بے پناہ دباؤ، مایوسی، پریشانی اور ڈپریشن کا باعث بنتا ہے۔ ایسے حالات میں سکول میں ایک خیال رکھنے والا اور ہمدرد نفسیاتی مشیر ایسے طلباء کیلئے ایک سماجی بالغ فرد کے طور پر کام کر سکتا ہے جو اپنے آپ میںمایوسی، بے بسی اور باغی پن محسوس کرتے ہیں۔وہ ان کے طرز عمل اور رویوں کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں، انہیں پریشان کن جذبات اور خیالات کی شناخت کرنے میں مدد کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں نفسیاتی علاج یا ٹاک تھراپی کا استعمال کرتے ہوئے مقابلہ کرنے کا طریقہ کار اور انسدادی حکمت عملی تیار کرنے کی تعلیم دے سکتے ہیں۔ سائیکو تھراپی کے ذریعے وہ ایسے طالب علموں میں بار بار آنے والے منفی عقائد اور خیالات کے شیطانی چکر کو توڑنے میں مدد کر سکتے ہیں جن کے بعد دائمی منفی احساسات اور جذبات آتے ہیں اور پھر منفی رویے اور اعمال (مجبوری)پر منتج ہوتے ہیں۔ وہ ان کی مدد اور تربیت کر سکتے ہیں کہ کب اور کیسے ان کی توجہ کو منفی سے مثبت خیالات اور احساسات کی طرف موڑنا ہے۔ نفسیاتی مشیر ایسے بچوں کے والدین کو بھی مشورہ دے سکتے ہیں، ان کے رویوں اور توقعات کو درست سمت میں منطقی،متوازن اور ہم آہنگ بنا سکتے ہیں۔ اس طرح یہ کونسلر طلباء کو والدین کی غیر حقیقی توقعات کے ناقابل برداشت بوجھ سے نجات دلانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
کالج کی سطح پر، طلباء جوش اور توانائی کے ساتھ کافی پرجوش محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک دلکش اور پْرجوش مرحلہ ہے جو ایک طالب علم کی زندگی میں اس کے مستقبل کی طرف ایک نئے موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ نئی جگہ، نئے لوگوں، نئے ہم جماعتیوں، نئے ماحول اور ایک نئی زندگی کا تجربہ بعض اوقات چند لوگوں خاص طور پر شرمیلے اورتنہائی پسند شخصیت کے حامل افراد کیلئے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نیا ماحول سماجی رویے، نیٹ ورکنگ، آپسی میلان اور نئی دوستی اور تعلقات بنانے کے نئے چیلنجزکا باعث بن سکتاہے۔ اس کے علاوہ یہ نیا ماحول کچھ طالب علموں کیلئے خود اعتمادی سے متعلق مسائل جو بدلے میں تناؤ، سماجی اضطراب، ڈپریشن، غیر معمولی رویہ اور غیر معمولی خیالات کا سبب بن سکتے ہیں۔
اس لئے ایک نفسیاتی مشیر ایسے طلباء کیلئے مدد کا ایک بہت ہی معاون ذریعہ ہو سکتا ہے جہاں وہ اپنے کیریئر، کورسز، تعلقات، نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے اور ذاتی جذباتی اور ذہنی صحت کے مسائل سے نمٹنے کیلئے مشاورت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس قسم کی نفسیاتی مشاورت ان کے حوصلے کو بڑھا سکتی ہے اور اپنے منتخب کردہ سلسلے میں ان کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہے اور غیر نصابی سرگرمیوں جیسے کھیلوں، موسیقی، فنون لطیفہ، موسم سرما اور موسم گرما کے کیمپوں، پیدل سفر، کوہ پیمائی، فطرت کی تلاش وغیرہ میں ان کی توہم پرستی ، مجبوریوں اور خامیوںکو دور کرنے میں ان کی مدد کر سکتی ہے۔انہیں سماجی اضطراب کے مسائل، منشیات کے استعمال اور روز مرہ کے تناؤ کے بارے میں مشورہ دیا جا سکتا ہے۔مناسب پیشہ ورانہ مدد انہیں جہاں بھی ضرورت ہو مناسب طبی اور غیر طبی مداخلت حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے اور اس طرح وہ غیر سماجی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کا شکار ہوئے بغیر اپنے کیریئر میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ اس طرح وہ اس طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اچھی طرح سے لیس ہوں گے اور ذہنی طور پر مضبوط ہوں گے کہ وہ ان کا سامنا کر سکیں۔
نوجوان جو کسی بھی قسم کی شخصیتی یا نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہوتے ہیں وہ خاص طور پر سماجی اخراج، امتیازی سلوک،طعنہ زنی کا شکار ہوتے ہیں جو بدلے میں مدد لینے کیلئے ان کی تیاری کو متاثر کرتے ہیں اور انہیں خطرہ مول لینے والے رویے، جسمانی اور ذہنی بیماریوں کی طرف مزید دھکیل دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں 15 سے 19 سال کی عمر کے بچوں میں خودکشی موت کی چوتھی بڑی وجہ ہے۔ لہٰذا، نوعمروں کی ذہنی صحت کے حالات کو حل کرنے میں ناکامی کے نتائج جوانی تک پھیل سکتے ہیں، جسمانی اور ذہنی صحت دونوں کو خراب کر سکتے ہیں اور بالغوں کے طور پر پوری زندگی گزارنے کے ان کے مواقع کو محدود کر سکتے ہیں۔ جسمانی، جذباتی اور سماجی تبدیلیاں بشمول غربت، منشیات ، یا تشدد نوعمروں کو ذہنی صحت کے مسائل کا شکار بنا سکتی ہے۔
پرائمری سکول کی سطح پر نفسیاتی مشیرشیزوفرینیا(دماغی انتشار اور پیچیدگیوںکی بیماری)، اضطراب اور گھبراہٹ، ،وسوسے ،چڑ چڑاپن جیسے مزاج میں تیزی اور اداسی، کھانے کے مسائل، آٹزم(خود فکری یا خود تسکینی)، ذہن پر چھا جانے والے اضطراری عارضہ (obsessive-compulsive disorder)،مابعد مصیبت ذہنی تنائو( پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر)، شخصیتی مسائل(personality disorders )یا سیکھنے کی معذوری(learning disabilities) جیسے عوارض میں مبتلا بچوں کی شناخت کرکے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ چونکہ والدین طبی طور پر علامات کو محسوس کرنے اور ان کی تشخیص کرنے کیلئے تربیت یافتہ نہیں ہیں، ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں، وہ اکثر ان عوارض کی نشاندہی کرنے اور اس کیلئے بروقت طبی مداخلت حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جس کی وجہ سے عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی شدت میں اضافہ اور پیچیدگیاں بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں۔سکول میں ایک نفسیاتی مشیر کی دستیابی بچوں کے کلاس ٹیچروں کے ذریعے مسلسل نگرانی کو یقینی بنا سکتی ہے جس کے نتیجے میں تعلیم کے بہتر نتائج کے علاوہ نفسیاتی اور شخصیت کی خرابیوں کی بروقت تشخیص اور جلد علاج ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، تمام تعلیمی اداروں کو نفسیاتی مشیروں کو شامل کرنا چاہیے تاکہ طلباء کی ذہنی صحت کو سنبھالنے اورانہیں منشیات سے دور رہنے میں مدد کی جاسکے۔
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ زندگی کے مناسب مرحلے پر صحیح کیرئیر کا انتخاب کرنے میں ناکامی یا عدم اہلیت اور کسی کی پسند کے برعکس اسکودوسرے کیریئر میں دھکیلناابھرتے ہوئے نوجوانوں میں سراسر مایوسی کا باعث بنتا ہے اور منفی خیالات، جذبات اور طرز عمل کو جنم دیتا ہے جس سے وہ منشیات کے استعمال اور ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لئے طلباء کی بروقت رہنمائی کیلئے سکولوں اور کالجوں میں پیشہ ورانہ کیرئیر کاؤنسلنگ کی مناسب سہولتیں دستیاب کرانا انھیں زندگی میں مایوسی، انتشار اور الجھنوں کی دلدل سے بچانے میں بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ایک نفسیاتی مشیر کے علاوہ ہمارے تمام تعلیمی اداروں کو کیریئر کونسلنگ سیل قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں پیشہ ورانہ طور پر اہل اور اچھے تربیت یافتہ کیریئر کونسلروں کی خدمات سائیکو میٹرک ٹیسٹنگ اورہر ایک کی انفرادی شخصی پروفائلنگ (personality profiling) کے ذریعے ہمارے طلباء کی مشاورت کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے دستیاب کرائی جائیں۔ تمام تعلیمی اداروں میں کیرئیر کے ساتھ نفسیاتی مشاورتی سیلز کا قیام ہمارے معاشرے کو منشیات کے استعمال کی خوفناک بیماری سے بچاؤ کیلئے ایک اچھی شروعات ہوسکتی ہے۔
(مضمون نگار کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ فارماسیوٹیکل سائنسز میں پڑھاتے ہیں اور یونیورسٹی کے سینٹر فار کیرئیر پلاننگ اور کونسلنگ کے ڈائریکٹر کا اضافی چارج رکھتے ہیں)
(نوٹ۔ مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی آراء ہیں اورانہیں کسی بھی طو ر کشمیرعظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔