سیّد آصف رضا
(ناربل)
یہاں قارئین کے ذوقِ طبع کے لئے اسی کتاب سے ایک ”کرامت“ پیش خدمت ہے:
مولانا سید عبد اللہ غزنوی کا شمار اکابر علماءِ اہلحدیث میں ہوتا ہے۔ آپ سنہ ۱۸۱۱ء میں افغانستان کے ضلع غزنی کے ایک مقام قلعہ بہادر خیل میں پیدا ہوئے۔ سنہ ۱۸۸۱ء میں امرتسر میں وفات پائی۔ آپ کا اصل نام محمد اعظم تھا مگر آپ نے اپنا نام بدل کر عبد اللہ رکھا۔ آپ کے دادا پردادا ولی کامل تھے ۔علمی و روحانی اقدار کے حامل خاندان کے ساتھ تعلق کے باوجود آپ وہابیوں کے زیرِ اثر آ گئے اور آمین بالجہر اور رفع الیدین کرنے لگے جس کی وجہ سے جلائے وطن ہونا پڑا اور ہجرت کرکے امرتسر آگئے۔ مولانا مولانا سید نذیر حسین دہلوی آپ کے استاد رہے ہیں۔
اس مختصر تعارف کے بعد لیجیے ”کرامت“ ملاحظہ فرمائیے:
”مولانا عبد اللہ المعروفِ غلام نبی الربانی سوہدروی کا بیان ہے کہ ایک بار ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضور! میں نے(انگریزوں کے خلاف لڑنے والے) مجاہدین کو ایک چٹھی بھیجی تھی، جو راستہ میں پکڑلی گئی۔ چونکہ میں سرکاری ملازم ہوں اوروہ چٹھی میرے افسروں کے پاس گئی ہے۔ اس کا اب مجھ پر مقدمہ چلے گا اور نہ صرف مجھے ملازمت ہی سے برطرف کیا جائے گا بلکہ سخت سزا دی جائے گی۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے اس مصیبت سے بچا لے۔ راوی کا بیان ہے کہ میرے سامنے حضرت مولانا عبد اللہ غزنوی نے مراقبہ کیا اور کچھ عرصہ کے بعد سر اٹھایا اور اپنی بغل سے وہ چٹھی نکال کر اس شخص کو دی اور پوچھا کہ کیا یہی ہے؟ اس نے چونک کر کہا: ہاں حضوریہی ہے، جس کی بناء پر مقدمہ چل سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے جلادو، اب مقدمہ نہیں چل سکے گا۔ چنانچہ جب مقدمہ پیش ہوا اور وہ افسر میری چٹھی پیش نہ کر سکا تو مجھے باعزّت بری کر دیا گیا۔“
(کرامات اہلحدیث، صفحہ ۹۷)
علامہ ابن تیمیہ (پ: 1263ء/ م: 1328ء) اپنے بعض افکار کے لئے متشدّد عالمِ دین کی حیثیت سے جانے جاتےہیں۔ حضرت پیر سید نصیر الدّین نصیرؔ گیلانی (پ: 1949ء/م: 2009ء) اپنی تصنیف ”نام ونسب“ (حضرت غوثِ اعظم شیخ سیّد عبد القادر جیلانی قدّس سرّہٗ کے نام و نسب کی تحقیق) میں علامہ ابن تیمیہ کی حضرت پیران پیر شیخ سید عبد القادر جیلانی کے ساتھ عقیدت کے بارے میں رقمطراز ہیں:
”عام طور پر علامہ ابن تیمیہ کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ موصوف اُمورِ دین میں سخت گیر تھے، بالخصوص صوفیائے کرام اور تصوف کے خلاف تھے۔ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ انہوںنے اُس تصوف اور اُن صوفیاء کی تردید کی ہے، جن کے نظریات و عقائد قرآن و سُنّت، آثارِ صحابہؓ و تابعین رحمہم اللہ کے خلاف ہیں۔ قبلۂ عالم حضرت پیر سید مہر علی شاہ قدّس سرّہٗ نے شیخ ابن تیمیہ کی بعض دینی خدمات کا اعتراف فرمایا ہے۔ شیخ ابن تیمیہ ان اولیائے کاملینؒ کی مخالفت نہیں کرتے، جو قرآن و سُنّت اور شریعتِ مطہرہ کے سختی سے پابند ہیں، بلکہ اُن سے تووہ اظہارِ عقیدت و نیاز بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے شرح کلمات الشیخ عبد القادر جیلانیؓ (من فتوح الغیب) ایک مستقل رسالہ لکھا، جس میں آنجنابؓ کی علمی و رُوحانی عظمتوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ یہ رسالہ مکتبۃ المثنّٰی بغداد سے شائع ہو چکاہے۔ علامہ ابراہیم الدّروبی اپنی تصنیف ”المختصر فی تاریخِ الشیخ عبد القادر الکیلانی“ میں تضارب الآراء حَول کراماتہٖ کے تحت لکھتے ہیں:
ان الامام ابن تیمیّۃ یُعلِنُ تبصدیقھا(ص ۳۰) ترجمہ: شیخ ابن تیمیہ حضرت عبدالقادر جیلانیؓ کی کرامات کی تصدیق کا اعلان کرتے ہیں۔
علامہ السیّد عبّاس العزادی کی کتاب تاریخ العراق بین احتلالین کی جلد چہارم کے حوالہ سے مزید لکھتے ہیں:
و کانَ العلّامۃ ابن تیمیّۃ یُرسِل من دمشق الشّام نذوراً وّ اعاناتٍ للحضرۃِ الکیلانیّۃِ لاجل الدّرسِ و التّدریسِ و اِطعامِ الطّعامِ وَ ذٰلک فی اواخر ربیع الاوّل و کانت تلک القافلۃُ تَحتَوی علیٰ ثلاثین بعیرًا۔ (ص۳۳) ترجمہ: اور علامہ ابن تیمیہ دمشق (شام) سے درگاہِ جیلانیہ میں نذرانے اور ہدیے درس و تدریس اور (غوثیہ لنگر میں) کھانا کھلانے کے لئے ربیع الاوّل کی آخری تاریخوں بھیجا کرتے تھے اور یہ قافلہ تیس اونٹوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ (انتہٰی) یہی علّامہ ابراہیم الدّروبی اپنی تصنیف ”المختصر فی تاریخِ الشیخ عبد القادر الکیلانیؒ“ میں علّامہ شہاب الدّین الوسی بغدادیؒ کی تصنیف ”مساجدِ بغداد“ کے ص ۱۳ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں: وَ لقد رأیتُ شیخَ الاسلام ابن تیمیّۃ یُثنی علیہ فی کُتُبِہِ الثّناءَ الاطیَبَ۔ (ترجمہ): میں نے شیخ ابن تیمیہ کی تصانیف میں دیکھا کہ وہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ کی بڑی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔
آج کل کے نام نہاد موحدین (وہابی) جو ابن تیمیہ کو اپنا امام و مقتدٰی کہتے اور تسلیم کرتے ہیں، اپنے امام کے محولہ طرزِ عمل پر ذرا غور کریں کہ وہ حضرت عبد القادر جیلانیؓ کے لنگر میں عمر بھر نذرانے اور ہدیے بھیجتے رہے، عمر بھر اس لئے کہا گیا کہ روایتِ مسطورہ بالامیں لفظِ کانَ استعمال کیا گیا اور کانَ مضارع پر استمرار کے لئے آتا ہے اور پھر ربیع الاوّل کے آخر میں ہدایا بھیجنے کا واضح مطلب یہ ہوا کہ شیخ ابن تیمیہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ (جن کا وصال بروایتِ مشہورہ گیارہ ربیع الثانی ہے) کے یومِ وفات کی مناسبت کو بھی ملحوظ رکھ کر ایسا کرتے تھے، ورنہ نذرانے اور ہدایا تو کسی وقت بھی ارسال کئے جا سکتے ہیںتھے۔ نذرانہ جو کہ ہدیہ ہی ہوتا ہے، شیخ ابن تیمیہ کے نزدیک ناجائز نہیں، اگر ناجائز ہوتا تو ایسا علامہ متشدّد کبھی اس طرح نہ کرتا، البتہ ضروری ہے کہ جعلی اور مصنوعی پیروں فقیروں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنے سے اجتناب کیا جائے، کیونکہ ایسے لوگ اِسے محض دکانداری بنا لیتے ہیں، اگر شیخ ابن تیمیہ کا معیار نظر میں رہے تو ترسیلِ ہدایا میں کوئی حرج نہیں۔“
(نام و نسب، ص ۶۳۹۔۶۳۷)
بہر حال بات تصوّف کی ہو رہی تھی۔ اوپر کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ تصوّف کو حدیث میں احسان کہا گیا۔ ایک سالک اپنے اندر اس کیفیت کو پانے کے لئے اس میدان کے شہسوار کی صحبت اختیار کرتا ہے اوراسی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق مسلسل ریاضات کرکے احسان کے منزل تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔
حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں:
گلے خوشبوئے در حمام روزے
رسید از دست محبوبے بدستم
بدو گفتیم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دلآویز تو مستم
بگفتا من گلے ناچیز بودم
ولیکن مدتے باگل نشستم
جمال ہمنشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
ترجمہ: ”ایک دن خوشبودار مٹی حمام میں مجھے ایک دوست کے ہاتھوں سے ملی۔ میں نے اس مٹی سے کہا کہ تو مشک ہے ، یا عنبر ہے،کہ تیری دلآویز خوشبو نے مجھے مست کردیا ہے۔ یہ سن کر مٹی نے جواب دیا کہ میں تو وہی ناچیز مٹی ہوںلیکن مدتوں تک پھولوں کی صحبت میں رہی ہوں۔ ہمنشیں کے جمال نے مجھ پر بھی اثر کیا (مجھے معطر کردیا)، ورنہ میں تو وہی ناچیز مٹی ہوں جو پہلے تھی ۔“
جب فقیر ملّت حضرت سیّد میرک شاہ صاحب کاشانی کو مکتب میں داخل کیا گیا تو آپؒ کو استاد نے پہلا سبق یہی پڑھایا۔ جب استاد نے ”جمال ہمنشیں در من اثر کرد“پڑھایا تو آپؒ مکتب سے جانے لگے۔ اُستاد نے پوچھا : کہاں جا رہے ہو؟ فرمایا: ہمنشیں کی تلاش میں!
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
کیمیا پیدا کن از مشت گلے
بوسہ زن بر آستان کاملے
انسانی شخصیت کے دو پہلو ہیں: نفسِ حیوانی اور روحِ ملکوتی ۔ یہ دونوں پہلو باہم متحارب اور مخالف ہیں۔ اپنی شخصیت میں نکھار لانے کے لئے نفسِ حیوانی کا تزکیہ کرنا اور روحِ ملکوتی کی تقویت اور تغذیہ کا اہتمام کرناہے۔ ”راہِ سلوک“ یعنی تصوّف کے ذریعے اور صحبتِ صالح میں رہ کر انسان کے اندر سےرزائل ختم ہو جاتے ہیں اور اس کا قلب نورانی بن جاتا ہے یعنی نفسِ حیوانی کا تزکیہ ہوتا اور روحِ ملکوتی کی تقویت ہوتی ہے جس سے ایک انسان منزلِ مقصود تک بآسانی پہنچ سکتا ہے۔
تصوف کیا ہے؟
تصوف کے بارے میں حضرت داتا گنج بخش مخدوم علی ہجویری (ولادت: 1009ء/ وصال: 1072ء) فرماتے ہیں:۔
اَلتَّصَوُّفُ صفاء السر من کدورۃ المخالفۃ۔
”باطن کو مخالفت حق کی کدورت اور سیاہی سے پاک و صاف کر دینے کا نام تصوف ہے۔“ ( کشف المحجوب)
عارف باللہ سیدی عبد الوہاب شعرانی (ولادت: 1491ء/ وصال: 1565ء) فرماتے ہیں:
اَلتَّصَوُّفُ اِنَّمَا ھُوَ زُبْدَۃُ عَمَلِ الْعَبْدِ بِاَحْکَامِ الشَّریْعَۃِ۔
”تصوف کیا ہے؟ بس احکام شریعت پر بندہ کے عمل کا خلاصہ ہے۔“
(الطبقات الکبریٰ، ج۱، ص ۴)
سیدی ابو عبداللہ محمد بن خفیف ضبی فرماتے ہیں:
اَلتَّصَوُّفُ تَصْفِیَۃُ الْقُلُوْبِ وَ اتِّبَاعُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فِی الشَّرِیْعَۃِ۔
”تصوف اس کا نام ہے کہ دل صاف کیا جائےاور شریعت میں نبی ﷺ کی پیروی ہو۔“
(الطبقات الکبریٰ، ج۱، ص ۱۲۱)
شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمۃ اللہ علیہ اسی سلسلے میں فرماتے ہیں:۔
التصوف هو علم تعرف به احوال تزکيه النفوس وتصفية الاخلاق وتعمير الظاهر والباطن لنيل السعادة الابدية موضوعه التزکية والتصفية والتعمير وغايته نيل السعادة الابدية.
’’یعنی تصوف وہ علم ہے جس سے تزکیہ نفوس، تصفیۃ الاخلاق، تعمیر ظاہر و باطن کے احوال کا علم ہوتا ہے تاکہ سعادت ابدی حاصل کی جاسکے۔ اس کا موضوع بھی تزکیہ، تصفیہ اور تعمیر ظاہرو باطن ہے اور اس کی غایت و مقصد سعادت ابدی حاصل کرنا ہے‘‘۔
(الرسالہ القشیریہ، ابوالقاسم القشیری)
یہ بات بھی دُرست ہے کہ تصوف کے نام پر کچھ لوگ دکانداری بھی چلاتے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو لوٹتے ہیں،لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ان کی غلط روش کی وجہ سے ”تصوف“ کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جائے اور اصلاح کے بجائے”تصوف“ کی مخالفت پر ہی سارا زور لگایا جائے۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ کتنے ہی دینی اداروں سے فارغ ”عالم“ غلط کامو ں میں مبتلا ہوتے ہیں ، لیکن ہم ان غلطی کرنے والوں کی وجہ سےتحصیلِ علم نہیں چھوڑتے یا تعلیم دین کے اداروں کی مخالفت نہیں کرتے اور نہ کرنی چاہیے، اسی طرح اگر کوئی صوفی بن کرغلط حرکات کا مرتکب ہو تو اس سے تصوف پر اعتراض کرنا نادانی اور جہالت ہوگی۔
دورِ حاضر میں مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کی مخالفت اور تنقیص سے مسلم دشمن قوتوں کے لئے ہم راحت کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔ اگرآپ کو قلم اُٹھانا ہی ہے تو ملی مسائل کے حل کےلئے لکھیں ، ہمارے نوجوانوں میں پھیل رہی بے حیائی اور نشہ خوری کے قلع قمع کرنے کے لئے لکھیں، انگنت موضوعات ہیں جن پر لکھنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ کا نام بھی مسلمانوں کے خیر خواہ کے طور پر لیا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ۔ (ختم شد)
ای میل۔[email protected]
(نوٹ:یہ مضمون علمی نوعیت کا ہے اور اس کے مندر جات سے ادارے کا کلی یا جزوی طور متفق ہونا لازمی نہیںہے۔کسی بھی قسم کی وضاحت کیلئے مضمون نگار سے فون نمبر7006566679پر رابطہ کیاجاسکتا ہے۔)