ڈاکٹر عریف جامعی
حضرت انسان کو دستیاب مختصر مہلت حیات اپنے آپ میں ایک متاع بیش بہا اور سرمایہ گراں مایہ ہے۔ اسی مدت میں انسان مختلف انواع و اقسام کی متاع جمع کرتا ہے اور زندگی میں اسی متاع کی حیثیت کے مطابق اپنا نام چھوڑ جاتا ہے اور جب وہ ملک عدم کا راہی بنتا ہے تو وہ اسی متاع کو حسنات یا سیئات کی صورت میں وہاں موجود پاتا ہے۔ اسی متاع کو اس کے جانشین پرکھتے ہیں اور اس کا حسن و قبح واضح کرتے ہیں۔ اسی تجزیے اور تحلیل کے ذریعے یا تو اس کو قبولیت کا پروانہ ملتا ہے یا اس کے پورے سرمایہ زیست کو رد کیا جاتا ہے۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ اس کی زندگی کی کمائی رد ہو یا قبول، دونوں صورتوں میں انسان کے چھوڑے ہوئے نقوش سے دنیا متاثر ہوکر رہتی ہے۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ انسان وہی رویہ اختیار کرتا ہے جس سے اسے محبت ہوتی ہے۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان کو دنیا میں نتائج کا فکر کیے بغیر بس متحرک رہنا چاہئے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ خیر و شر کے درمیان چناؤ اور انتخاب کی آزادی اور اختیار رب کائنات نے انسان کو بخشا ہے اور اسی کے تحت اس کو اپنے اعمال پر مسئول ٹھہرایا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس آزادی کے تحت کئی انسان راہ راست کا انتخاب کرکے خدا کی ابدی نعمتوں کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور بہت سارے سیدھے رستے سے بے اعتنائی برت کر خدا کے غضب کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ انسان کو کسی بھی چھوٹے یا بڑے معاملے کے تئیں آنکھیں بند کرکے اپنی رائے بنانی چاہئے اور نا ہی بے سمجھے بوجھے کوئی رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ یعنی انسان کو “کھول آنکھ زمین دیکھ، فضا دیکھ، فلک دیکھ” کی مصداق اپنا فکر و عمل ترتیب دینا چاہئے۔ اس طرح انسان ایک خاص لائحہ عمل چن کر اس کے ساتھ شدید محبت کرنے لگتا ہے۔
ایسا طریقہ کار انسان کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ وہ چیزوں کو ایک معروضی انداز میں دیکھ اور پرکھ سکتا ہے۔ انسان اس طرح بے کم و کاست اپنا نقطہء نظر بھی ترتیب دے سکتا ہے اور اسی کے مطابق عملی دنیا پر بھی ایک منفرد انداز میں اثر انداز ہوسکتا ہے۔ یہی ایک ایسی صورت ہے جس کے تحت انسان زندگی کو پورے انہماک کے ساتھ جی سکتا ہے، اور مثبت یا منفی رویہ اپنا کر تاریخ کی تختی پر اپنے اپنائے ہوئے رویے کے نقوش ثبت کرسکتا ہے۔ زندگی کی اس تگ و دو میں مصروف انسان کے لئے بارہا ایسے مواقع آتے ہیں کہ وہ اپنی بیتی ہوئی زندگی کی کارگزاریوں کو بنظر غائر دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس وقت اس کو احساس ہوتا ہے کہ زندگی کی طویل مدت گرانقدر ضائع ہوتی آئی ہے۔ اس موقعے پر انسان کی کاوشوں کا رخ یکدم تبدیل ہونے لگتا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان غیر مذہب سے مذہب کی طرف آتا ہے۔ بلکہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان اس موڑ پر بے احتیاطی کی روش ترک کرکے احتیاط کا دامن ہاتھ میں لیتا ہے اور زندگی کو ایک نئے طریقے سے ازسر نو ترتیب دینے کی کوشش کرتا ہے، جو اس کا محبوب مشغلہ بن جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ انسان کا یہ رویہ، لائحہ عمل یا مشغلہ نظریاتی ہوسکتا ہے یا اس کی بنیاد وجدان پر ہوسکتی ہے۔ چونکہ اپنے طریقہ کار کے ساتھ انسان کے جذبات وابستہ ہوجاتے ہیں، اس لئے اس کے ہاتھ سے جو محبوب سرمایہ چھوٹ جاتا ہے یا جس کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس کے لئے وہ تاسف کا اظہار کرے یا نا کرے، اس کے دل میں درد کی ایسی ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں کہ آہ و بکا اس کا نیا انداز بن جاتا ہے۔ چھوٹے ہوئے سرمائے کا جہاں تک تعلق ہے، تو یہ کوئی شخص بھی ہوسکتاہے، کوئی ٹھوس شئے بھی ہوسکتی ہے یا کوئی مجرد خیال یا نقطہ نظر بھی ہوسکتا ہے۔ ان سبھی صورتوں میں انسان ایسے درد و کرب میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کی چشم گہر بار رہتی ہے اور اس کا دل محزون، ملول اور مغموم رہتا ہے۔ اب اس شخص سے وصل، اس شئے کا حصول یا اس نظریے کا بول بالا ایسے انسان کی جستجو بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس نصب العین کی جستجو کو آنسوؤں اور سسکیوں کی بجائے عزم صمیم کی حاجت ہوتی ہے۔ تاہم منزل مقصود تک پہنچتے پہنچتے راہرو راہ محبت اپنی بیتابی کو نالوں اور فریاد و فغاں میں ظاہر کرتا رہتا ہے۔
مخصوص شخص، نرالی شئے یا منفرد تصور کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور شدید محبت اب انسان کو دریائے عشق میں غوطہ زنی کے لئے تیار کرتے ہیں۔ عشق کی شدت اب اسے نڈھال بلکہ بے بس کرتی ہے۔ محبوب اور معشوق کی ہر ادا کا اب یہ مشتاق ہوتا ہے۔ محب کو محبوب شخص یا شئے کی موجودگی میں اپنے ہونے کی تکمیل محسوس ہوتی ہے۔ بات (صرف) ایسی نہیں ہوتی کہ محبوب شئے کا ظاہری حسن و جمال اس کی راحت کا سامان کرتا ہے۔ دراصل محبوب اس کی زندگی کو معنی اور مفہوم عطا کرتا ہے، جو دوسروں کے لئے غیر ضروری بھی ہوتا ہے اور ناقابل فہم بھی۔ نوافلاطونی فلاسفہ (نیوپلوٹونسٹس) کی نگاہ سے دیکھیں تو اس بے قراری کو انفرادی روح (انڈویڑول سول) کی اس بے چینی سے سمجھا جاسکتا ہے جو وہ آفاقی روح (ورلڈ سول) سے انفصال (جدائی) محسوس کرتی ہے۔ تاہم انفرادی روح اس کا مداوا اس طرح کرتی ہے کہ اعلی حقائق پر فلسفیانہ تدبر و تفکر (کنٹمپلیش) کو اپنا شیوہ بنا لیتی ہے۔
صوفیاء کرام نے اس درد و سوز، جو محبین اور عشاق کی متاع بیش بہا ہوتی ہے، کو اپنے خاص انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانائے روم کی مثنوی فراق کے اسی درد و غم سے شروع ہوتی ہے اور اس آہ و زاری کو ایک آفاقی رنگ دیتی ہے:
بشنو از نے چوں حکایت می کند
وز جدائی ہائے شکایت می کند
یعنی “بانسری سے سن! کیا بیان کرتی ہے؛ اور جدائیوں کی کیا شکایت کرتی ہے؟” مطلب یہ کہ اپنی اصل سے جدا ہوکر کوئی بھی شئے شکایت ضرور کرتی ہے اور اس مقصد کے لئے ایک خاص انداز اختیار کرتی ہے۔
کز نیستاں تا مرا ببریدہ اند
از نفیرم مرد و زن نالیدہ اند
یعنی یہ “کہ جب سے مجھے بنسلی سے کاٹا ہے، میرے نالے سے مرد و زن (سب) روتے ہیں!” مطلب، ہجر اور فراق جدا ہونے والے کا ذاتی مسئلہ نہیں رہتا۔ یہ ہر خاص و عام کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ہر کوئی اس کو اپنے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تا بگویم شرح درد اشتیاق
یعنی “میں ایسا سینہ چاہتی ہوں جو جدائی سے پارہ پارہ ہو، تاکہ میں عشق کے درد کی تفصیل سناؤں۔” مطلب یہ کہ قصہ درد سن کر ہر کوئی اپنی افتاد طبع کے مطابق اس میں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے، لیکن حق یہ ہے کہ وہی دل یا سینہ اس کا حقیقی اثر قبول کرسکتا ہے جو نے کی طرح پارہ پارہ ہوچکا ہو!
ہر کسے کو دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
یعنی “جو کوئی اپنی اصل سے دور ہوجاتا ہے، وہ اپنے وصل کا زمانہ پھر تلاش کرتا ہے۔” ظاہر ہے کہ وصل کی آرزو وہی شخص کرے گا جو وصال آشنا ہو۔ ہر کس و ناکس اس راہ کا راہرو نہیں بن سکتا۔
من بہر جمعیتے نالاں شدم
جفت خوشحالان و بدحالاں شدم
یعنی “میں ہر مجمع میں روئی؛ خوش اوقات اور بد احوال لوگوں کے ساتھ رہی!” تاہم نے ہر کسی کے غم کو آواز اور آہنگ عطا کرتی ہے، اس تفریق کے بغیر کہ آیا غم ہلکا ہے ہے یا جانگسل؟
ہر کسے از ظن خود شد یار من
وز درون من نہ جست اسرار من
یعنی “ہر شخص اپنے خیال کے مطابق میرا یار بنا، اور میرے اندر سے میرے رازوں کی جستجو نہ کی۔” ظاہر ہے کہ نے کا سہارا لیکر ہر کوئی اپنے غم کو زائل کرنے کی کوشش تو کرتا ہے، لیکن نے کے اندر پوشیدہ اسرار کو جاننے کی کبھی کسی نے کوئی کوشش نہیں کی۔
سر من از نالہ من دور نیست
لیک چشم و گوش را آں نور نیست
یعنی “میرے راز، میرے نالے سے دور نہیں، لیکن آنکھ اور کان کے لئے وہ نور نہیں ہے۔” مطلب صاف ظاہر ہے کہ جب راز ہائے سربستہ، جو نے کی لے کے اندر ہی موجود تھے، کو کسی نے جاننے کی کوشش نہیں کی، تو خارجی بصارت اور سماعت سے اس غم ہجر کو کون جان سکتا ہے؟ یعنی ذوق کی چیز کو حواس خمسہ سے جاننے کی کوشش عبس ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک عامی کا نالہ کسی آلہ کا محتاج ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے لئے کسی سر کی ضرورت ہوتی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ نالہ برجستہ بھی ہونا چاہئے اور بے باک بھی۔ اگر نالے کو سروں کا پابند کیا جائے تو اس پر تصنع کا ایک ایسا پردہ چڑھے گا کہ اس میں نالے کی تاثیر باقی نہیں رہے گی۔ اس طرح وہ درد و کرب جو نالے کے آہ و فغاں سے منتقل ہوتا ہے، فقط سروں کے زیروبم کا ایک گورکھ دھندا بن جائے گا۔ فطرت کے مختلف مظاہر، جو خوشی اور غم دونوں کی ترویج کا ذریعہ بنتے ہیں، بھی انتقال اور انفجار غم کے مصنوعی طریقوں سے ہم آہنگ نہیں ہوں گے۔ ان مصنوعی طریقوں سے نالہ کناں کا غم زائل ہوگا اور نا ہی نالہ سننے والوں کا غبار خاطر ہلکا ہوگا، یعنی کسی کا کتھارسس نہیں ہوپائے گا۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے:
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
نالہ پابند نے نہیں ہے
دنیائے تصوف میں مولانا رومی، جن کی حالت شمس تبریز کے اچانک آنے اور اچانک چلے جانے سے دگرگوں ہوئی تھی، سے بہت پہلے منصور الحلاج نے “عشق مستی” کو “انا الحق” کہہ کر ظاہر کیا تھا۔ اس صوفی کے تصورات، جو “کتاب الطواسین” میں بیان ہوئے ہیں، اتنے عمیق اور اصلی ہیں کہ صلیب پر ان کی “عبرتناک” موت کے باوجود یہ تصورات زمانہ وسطیٰ سے ہوتے ہوئے زمانہ جدید میں صوفیاء ، فلاسفہ اور مفکرین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ منصور الحلاج کی صلیب کے دوران جب عام لوگ ان پر سنگ باری کررہے تھے تو وہ مسکراتے جاتے تھے۔ تاہم جب صوفیاء میں سے ایک بڑے صوفی، ابوبکر شبلی نے ان کی طرف ایک پھول پھینکا تو منصور رو پڑے۔ وجہ پوچھے جانے پر آپ نے کہا کہ عام لوگ اس کے حال سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ناقابل مواخذہ ہیں۔ تاہم ابوبکر شبلی ان کا حال بخوبی جانتے تھے، اس لئے ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی!
اس طرح کسی شئے، کسی شخص یا کسی خاص نصب العین (نظریہ) سے بے پناہ لگاؤ اور محبت ہی وہ متاع گراں مایہ ہے جو انسان کو درد محبت کے ساتھ ساتھ سوز عشق میں مبتلا کرتا ہے۔ یہی متاع درد و سوز انسان کو انسانوں کے انبوہ کثیر سے الگ تھلگ کرکے شاہراہ محبت میں معمولی سے غیر معمولی شخصیت میں تبدیل کرتی ہے۔ یعنی “فرینڈشب آف دی ون سنگلز یو آوٹ اینڈ میکس یو ایکسٹرا-آرڈینری!”
(ای میل۔ [email protected])