امتیاز خان
دنیا کے لگ بھگ تمام ممالک آج کل کسی نہ کسی بحران میں الجھے ہوئے ہیں ۔ پہلے دنیا کو صرف قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا سامنا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ چاقو زنی ،جنسی ہراسانی ، دھوکہ دہی، فراڈ ،رشوت خوری، قومی اثاثوں میں خرد برد اور دیگر جرائم میں اضافہ ہوا۔ وادی کشمیر میں بھی گزشتہ برسوں کے دوران ایسے جرائم دیکھنے کو ملے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھابلکہ انسان لرز جاتا ہے۔رواں سال چاقو زنی کا نیا رجحان تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔حالیہ ایام میںوادی کے مختلف علاقوں میں10سے زائد وارداتیں رونما ہوئیں۔چاقو زنی کے ان معاملات میں دو افراد کی موت بھی واقع ہوئی۔سماج میں اس مجرمانہ رجحان میں مسلسل اضافہ تشویش کا موضوع بنتا جارہا ہے۔ حکمراں، انتظامیہ، سماجیات و نفسیات کے ماہرین ، اساتذہ اور عوام کیلئے یہ مجرمانہ مزاج ایک مشکل اور سنجیدہ مسئلہ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جرائم پہلے نہیں ہوا کرتے تھے لیکن گزشتہ چند برسوں میں مجرمانہ رجحان بڑھتا جارہا ہے اورلوگ طرح طرح کے جرائم میں ملوث پائے جارہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے فروغ نے بھی جرائم کے مزاج کو بدلا ہے۔ یہ کسی بھی سماج کیلئے اچھی علامت نہیں ہے۔ جنسی جرائم کے معاملات کہیں زیادہ تشویشناک ہیں۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی)کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال جموں و کشمیر میںجنسی ہراسانی کے 350سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کم سے کم روزانہ ایک ایسا شرمناک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ حال ہی میں شمالی کشمیر کے ایک گائوں میں ایک شخص کا اپنی دوسری بیوی کی بیٹی کے ساتھ جنسی استحصال کا معاملہ سامنے آیا۔ ملزم کئی برسوںسے معصوم بچی کو اپنی ہوس کاشکار بناتا رہا۔
گلوبلائزیشن کے بعد دولت اور طاقت کی غیرمساوی تقسیم اورٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی بھی جرائم میں اضافے کا سبب بنی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کورونا وبا نے جن حالات کو جنم دیا ہے، ان سے بھی جرائم میں اچانک اضافہ ہوا ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی بیماری یا وبا صرف انسانی جسم پر ہی اثر نہیں ڈالتی بلکہ سماج کے ہر رسمی اور غیررسمی اداروں کو متاثر کرتی ہے۔ایسا نہیں کہ جرائم صرف عورتوں کے خلاف ہی بڑھ گئے ہوں بلکہ بچوں ، بزرگوں اورشادہ شدہ مردوں کے خلاف بھی جرائم اور بدسلوکی کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں۔
بحیثیت مجموعی ہمارے معاشرے میں جرائم نے سرایت کرلی ہے۔ جرائم میں اس طرح کا اضافہ سخت تشویش کا باعث بن رہاہے۔بیٹے کے ہاتھوں باپ کا قتل اور اپنے آشنا کے ساتھ مل کر بیوی کے ہاتھوں شوہر کی ہلاکت ایسے واقعات ہیں جو ہمارے معاشرے کا حصہ بن رہے ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے لوگوں میں حد درجہ خوف پایا جاتا ہے لیکن اب حالیہ جرائم کے واقعات نے اس خوف میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اب اس خوف کی وجہ سے ذہنی تنائو میں بھی اضافہ ہورہاہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان واقعات کی روکتھام کیلئے کوئی منظم کوشش نہیں ہورہی ہے۔ ہر کسی کی خواہش ہے کہ سرکار ایسے واقعات کو روکنے کے اقدامات کرے۔ سماج کے اندر ایسے واقعات کو روکنے پر پہلے روک لگائی گئی نہ اب کوئی آواز اٹھائی جارہی ہے۔ اس طرح کی خاموشی حیران کن ہے۔یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ موجودہ سماج ایک ’بازار ی سماج‘ ہے جہاں انسان اپنی ضرورتوں کا نہیں بلکہ ’خواہشات‘ کے تابع ہوتا ہے۔ ایسے سماج میں جرائم کی شرح میں اضافے کے امکانات و خدشات سے کس طرح انکار کیا جاسکتا ہے۔
ہر معاشرے کاایک دستور ہوتا ہے جس کے مطابق لوگ اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں۔ اپنے روز مرہ کے معاملات کو انہی اصولوں کے تحت انجام دیتے ہیں اور اگر معاشرے میں قانون کی بالادستی قائم نہ رہے تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ جرائم کا پھیلائو عام ہونے لگتا ہے۔ رعایا بدحالی اور نا انصافی کاشکار ہوجاتی ہے۔ عدل معاشرے سے ختم ہو جاتا ہے اور لوگوںمیں احساسِ ذمہ داری کا خیال نہیں رہتا ۔معاشرہ ذلت و رسوائی کی علامت بن جاتا ہے۔ بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ آج کے اس جدید دور میں انسان بہتر معیار زندگی کی کوششوں کے دوران بھول جاتا ہے کہ آخر وہ کس مقصد کیلئے دنیا میں آیا ہے اور اس کا حقیقی عمل کیا ہونا چاہئے تھا۔ہم معاشرتی برائیوں میں گھر کر انسانیت کی درجہ بندی سے گر گئے ہیںجس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ جھوٹ، قتل و غارت، فریب ، چوری، رشوت خوری، سود ،منشیات کی لت اور دوسروں کی حق تلفی جیسی برائیاں جنم لے چکی ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتوںکو انا کا مسئلہ بناکر رد عمل ظاہر کیا جاتا ہے جو ہنگامی صورتحال کو جنم دے رہی ہے۔ حلال وحرام، سچ اور جھوٹ کی تمیز نہیں رہی اور جھوٹ کا شکار ہو کر دیگر جرائم میں ملوث ہو چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ معاشرہ تباہی کی نظر ہو چکا ہے۔ ہر فرد زندگی کی آسائشوں کو ڈھونڈنے کیلئے کرپشن میں ملوث ہو رہا ہے۔روز بروز بڑھتے ہوئے جرائم پر کوئی کنٹرول نہیں ۔
سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ اب جبکہ ہم ایک ہمہ وقت نگراں سماج میں رہ رہے ہیں تو پھر کس طرح ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔آخر کیوں؟ کیا حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا فحش ویب سائٹوں پر سرکار کی کوئی گرفت نہیں ؟کیا سماج پر اثر و نفوذ رکھنی والی شخصیات کااپنی ذمہ داریوں سے فرار جائز ہے؟سماج کے بہی خواہوں سے یہ بات عرض ہے کہ جرائم روکنے کیلئے سخت سزائیں کافی نہیں ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جرائم پر اکسانے والے محرکات کا سد باب کیا جائے اور اس سلسلے میں فطرت سے ہم آہنگ اور انسانی ضرورتوں اور مصلحتوں کی رعایت سے بھر پور تعلیمات سے روشنی حاصل کی جائے۔ انسان کے مزاج کو صحیح راستہ پر قائم رکھنے میں تعلیم کا بڑا حصہ ہے، تعلیم کے ذریعہ انسان کی سوچ بنتی ہے، فکر صحیح ہوتی ہے اور مثبت تبدیلی آتی ہے۔ اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اخلاقی تعلیم کو لازمی جز بنایا جائے۔ اخلاقیات کی تعلیم اور اخلاقی تربیت سے محرومی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک طرف تعلیم میں آگے بڑھ رہا ہے ، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پوری دنیا کو ہم افرادی وسائل مہیا کرتے ہیں، ہمارے تیار کئے ہوئے ہنر مند فنی مہارت کی وجہ سے پوری دنیا میں بہترین کاریگر یا مزدور مانے جاتے ہیں لیکن اخلاقی تعلیم اوراقدارسے دوری نے برباد کردیاہے۔اسی لئے شریعت میں بچوں کی تربیت کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ حدیث پاک کے الفاظ ہیں ’’کوئی باپ اپنے بیٹے کو بہتر تربیت سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں دیتا‘‘ لیکن موجودہ تعلیمی نظام کے تحت سکول اور اساتذہ ہی والدین کا کردار ادا رکرتے ہیں کیونکہ بچوں کا زیادہ وقت سکول ہی کی فضاء میں گزرتا ہے۔ اسلئے ایک طرف والدین کو گھروں میں بچوں کی تربیت کرنی چاہئے اور ان کے اوقات پر نظر رکھنی چاہئے کہ ان کا وقت کہاں گزر تا ہے، وہ کن لوگوں کی صحبت میں رہتا ہے اور کن لوگوں کے یہاں اس کی آمد ورفت ہے تو دوسری طرف سکولوں میں اساتذہ اخلاقیات پر درس دیں تاکہ دو طرفہ تربیت بچوں کو بگڑنے سے بچائے رکھے گی۔ٹیکنالوجی وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن اس کی تند و تیز ترقی نے سائبرجرائم کی رفتار بڑھادی ہے۔آج بازار ریاست، سماج اور خاندان سے بڑا ہوگیا ہے۔ بالفاظ دیگر’ بازاری سوچ‘ نے تمام رسمی اور غیررسمی اداروں کو نگل لیا ہے۔ اسلئے ریاست اور سماج کے مابین تعلق پر اور ان کی ذمہ داریوں پر شدید غور و خوض کی ضرورت ہے۔ صرف تعلیم، بیداری، گہری فہم اور متعلقہ واردات کا ذاتی طور پر جامع تجزیہ ہی انسان کو جرم کرنے یا اْس میں پھنسنے سے روک سکتا ہے۔
معاشرتی تربیت کے لحاظ سے قدم قدم پر بچوں کو والدین کے مدد کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ جسمانی اور ذہنی نشو و نما کے ساتھ ساتھ معاشرتی پختگی بھی حاصل کر سکیں۔ تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے معاشرتی نظم و ضبط کا خیال رکھیں، رائج قوانین کا احترام کریں تاکہ انہیں معاشرتی اصولوں اور قوانین کی پابندی کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ گھریلو زندگی ہی بچوں کی معاشرتی نشو و نما کی بنیاد بلکہ پہلی درسگاہ ہوتی ہے، وہ پہلا معاشرتی ادارہ جس میں وہ اپنے والدین کے زیر سایہ عمر کی مختلف منازل طے کرتے ہیں۔ اپنے والدین کو دیکھ کر وہ دوسرے افراد کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرتے اور آدابِ زندگی کے طریقوں سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ وہ سیکھتے ہیں کہ بڑے بہن بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہئے۔ یوں والدین کا معاشرے کے مختلف افراد سے اچھا طرز عمل بچوں کی معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
وادی کشمیر کودنیا میںایک جنت کی حیثیت سے پہچانا جاتاہے جو اپنے ثقافتی ورثے، باغات اورسیاحتی مقامات کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کشمیری معاشرے میں ایسے واقعات کو روکنا مشکل ہے۔دنیا کے اس خوبصورت خطے کو جرائم سے پاک کیا جاسکتا ہے لیکن یہ فقط سرکار کا کام نہیں ۔سماج کا ہر طبقہ اور ہر شہری اپنے گھر سے اپنا حق ادا کرے تو اس پریشان کن معاملے سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔یاد رکھیںکہ جرائم کی شرح میں کمی تازہ ہوا کے کسی جھونکے سے کم نہیں جس سے نہ صرف عوام کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ ایک مرتبہ پھر توجہ کا مرکز بنیں گے۔
ای میل۔[email protected]