قیصر محمود عراقی
کرئہ ارض کی پانچ ہزار سالہ مر قومہ تاریخ گواہ ہے دنیا کی کسی بھی قوم نے اس وقت تک تر قی نہیں کی جب تک اس نے اپنی زبان کو ہر شعبہ میں ذریعہ اظہار نہیں بنایا ۔مگر اس کے بر عکس ہمارے یہاں یہ بد قسمتی ہے کہ ہم نے اول روز سے ہی غیروں اور غیروں کی زبان کے سہارے چلنا شروع کیا ہے اور شاید یہ بات بھول گئے ہیں کہ زندگی آپ کو کا میابی کے راستے نہیں لے جا تی ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اپنے پائوں پر چلنے کی بجائے کئی بر سوں سے ہمیں ایک ہی سبق پڑھایا جا رہا ہے کہ انگریزی سیکھے بغیر تر قی کر نا ناممکن ہے ۔ اپنی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان سیکھنا جرم تو نہیں ہے مگر اپنی زبان کا تر ک کر نا ایک ایسا جرم ہے جو پوری قوم کو تنزل میں ڈھکیل دیتا ہے ، اپنی زبان کو چھوڑ کر دوسرے کی زبان کے پیچھے اسقدرپڑ جا نا کہ رات دن اسی کو منہ مروڑ کر بولنا کہ جیسے ساری کا میابی اسی میں ہے ، تو یہ غلط ہے ۔ کسی دوسری زبان کا استعمال بطور ثانوی زبان ہو نا چاہیئے جبکہ اپنی زبان کو اولین حیثیت دینی چاہئے ۔
اصل میں قومی زبان کا حق یہ ہو تا ہے کہ پوری قوم اسے ذریعہ اظہار بنا ئے اور سرکاری سطح سے اسے ہر شعبے میں نافذ کیا جا ئے ۔مگر ہمارے معاشرے میں بد قسمتی سے یہ دونوں چیزیں نا پید ہیں ، ہماری قوم اردو زبان کو فروغ دینے کا رونا روتی ہے اور حکومتی سطح پر انگریزی کو اہمیت دی جا تی ہے ۔ یہی حال ہمارے تعلیمی ادروں کے نصاب کا ہے جس میں طالب علموں کو ایک ہی وقت میں اردو ، انگریزی ، فارسی اور عربی ، ہندی اور بنگلہ سکھانے کی کوشش کی جا تی ہے ، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ کسی بھی زبان پر مہارت حاصل نہیں کر پا تا ، صرف یہی نہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس کسی قوم کی زبان ذریعہ تعلیم بنائی جا ئے تو اس نہ صرف اسی قوم کی زبان آتی ہے ، بلکہ اسی قوم کی تہذیب و ثقافت بھی ساتھ چلی آتی ہے اور بچے خود بخود اپنی تہذیب اور مذہبی تعلیم کو بھلا کر اسلام علیکم کی بجائے Good Morning، اللہ کا شکر ہے کی بجائے Fine اور اللہ حافظ کی بجائے Good Bye وغیرہ وغیرہ کہتے ہیں ۔ آج ہمارا اُٹھنا ، بیٹھنا ، رہنا سہنا اور کھا پینا تک مغربی طرز کا ہو چکا ہے ۔ علاوہ ازیں اور پتا نہیں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی کا بلا جواز اور اندھا دھند استعمال اردو کے دائرہ کار کو روز بروز تنگ کر رہا ہے ۔ یہ وبا یہیں پر ختم نہیں ہو جا تی ۔ہم اپنے روز مرہ بول چال میں اچھے بھلے اور خوبصورت اردو الفاظ کو چھوڑ کر جان بوجھ کر ارادتاً اور بطور فیشن انگریزی الفاظ استعمال کر تے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہم میں بعض اتنے مہذب لوگ بھی ہیں جو دو تین انگریزی الفاظ اور ایک آدھ اردو لفظ بو لتے ہیں ۔
یہ سچ ہے کہ اگر زبانیں تعطل کا شکار ہو جائیں یا ان کے دائرہ کا ر پر ارادتاًکوئی پابندی عائد کر دی جا ئے تو ایسی زبانیں دنیا میں زندہ نہیں رہتیں ۔ مگر پتا نہیں ہم کس احساس کمتری اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اردو زبان کے لئے احتجاج تک نہیں کر رہے ہیں اور حکومت بھی اردو زبان کو بطورر سرکاری اور دفتری زبان نافذ کر نے میں ٹال مٹول کر رہی ہے ۔ اگر لسانی سطح پر اس کا تقابلی جائزہ لیا جا ئے تو یہ انگریری اور دوسری زبانوں سے کہیں زیادہ آسان ہے ، آج جو ہمیں صلہ مل رہا ہے وہ اسی لئے مل رہا ہے کہ ہم نے اپنی زبان پر غیر زبان کو تر جیح دی جس وجہہ کر غیروں کی زبان کے محتاج ہو ئے اور پھر کوڑی کوڑی کے ان ہی کے دست نگر ہو کر رہ گئے ۔
ایک دور تھا جب اردو ادب بہت عروج پر تھا ، بڑے بڑے شاعراور ادیب اردو ادب میں مقبو لیت کے اشارے لوٹ رہے تھے ، بڑے بڑے مشاعرے منعقد کئے جا تے تھے ۔ جس میں شہر کے مشہور و معروف شاعر و ادیب شرکت کر تے تھے اور محفلوں کی محفلیں لوٹ لیتے تھے ۔ ماضی کے دور میں شاعر اور ادیبوں کی فکری نشستیں ہوا کر تی تھیں ،سب اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کو شعر سنایا کر تے تھے اور ایک دوسرے سے خوب داد یں بھی وصول کیا کر تے تھے ۔ ہزاروں کی تعداد میں شاعری کی کتابیں چھپتی تھیں اور لوگ بڑی بے صبری سے ان کتابوں کے چھپنے کا انتظار بھی کر تے تھے اور پھر بڑے شوق سے خریداری بھی کر تے تھے۔ شاعر و ادیب نہ صرف معاشرے کو ماضی سے متعارف کر واتے ہیں بلکہ مستقبل کا نقشہ بھی دکھاتے ہیں ۔ شاعر و ادیب سوچ کے نئے نئے انداز سے متعارف کر واتے ہیں ، دماغ کے بند دروازے کھولتے ہیں اور لوگوں کو سوچنے اور سیکھنے کے لئے انداز میں مواقع فراہم کر تے ہیں ۔ ایک ادیب ، ایک شاعر اپنی تحریروں سے لوگوں کے دلوں میں نفرت بھی پیدا کر سکتا ہے اور محبت بھی ڈال سکتا ہے ۔آج ادیب و شاعر کو معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو اس کو ملنا چاہیے اور جو اس کا حق ہے ۔ لوگ ادیب و شاعر کی شاعری، الفاظ اور تحریریں تو پسند کر تے ہیں مگر شاعر کو کوئی اپنی بیٹی کا راشتہ دینے کے لئے تیار نہیں ہو تا صرف اس کی معاشی ابتری کی وجہ سے ، جس سے دلبر داشتہ ہو کر وہ ایسا مواد لکھنا چھوڑ دیتا ہے جس کی معاشرے کو بہت ضرورت ہے ۔ لیکن ہمارے یہاں لوگوں کا المیہ ہے کہ انسان کے مر نے کے بعد اس کو خراج تحسین پیش کیا جا تا ہے ، ان کی زندگی میں نہیں ۔اگر مر نے والے کو اس کی زندگی میں خراج تحسین پیش کیا جا ئے تو بہت بڑے مقام تک پہنچ سکتا ہے ۔ لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بطور مسلمان اپنی زبان اردو کو فروغ دیں اور اسے نا پید ہو نے سے بچائیں ۔ اپنی زبان کو یہ حق کہ دلوائیں کہ اسے سرکاری و نجی سطح پر استعمال کیا جا ئے ، نیز اپنے بول چال اور لفظوں کے انتخاب پر بھی تو جہ دینی ضروری ہے کیونکہ بے شک کسی دوسری زبان کی تعلیم حاصل کر کے تر قی حاصل کر لی جا ئے مگر ایسی تر قی کا کیا فائدہ جس میں اپنی اردو زبان کا حق ہی دانہ ہو ۔
(رابطہ۔6291697668)