سید مصطفیٰ احمد ۔ بڈگام
زندگی رشتوں کا نام ہے۔ اللہ مالک ہے تو یہ خالق اور مخلوق رشتہ ہوا۔ ایک بچہ ماں اور باپ کی وجہ سے جنم لیتا ہے، تو ایک اور رشتہ بن جاتا ہے۔ اب اس رشتے سے بہن اور بھائیوں کا رشتہ جڑتا ہے، اسی طرح رشتوں کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ افریقہ کے جنگلات سے نکل کر پہلے انسان دیوانوں کی طرح پھرتا تھا۔ پھر Yuval Noah Harari کے مطابق intellectual revolution نے انسان کو تخلیقی اذہان سے مزین کر دیا ۔ اب انسان قبیلوں یا سماج میں رہنے لگا، خواہ اس کی شکل کیسی بھی ہو۔ یہ قافلہ چلتا رہا اور آج اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہم پہنچ چکے ہیں۔ان ادوار میں نئے نئے رشتے بنے اور ہر موڑ پر انسان کو رشتوں سے واسطہ پڑا ہے۔ اس طرح اس دنیا میں رہنے کے لئے رشتوں کا ہونا جیسے ضروری سا ہوگیا۔ انسان ڈرپوک ہے، یہ قدرتی اور دنیوی آفات سے خوفزدہ ہے، اس کے علاوہ ہوس کا پجاری ہے۔ ہاں! یہ دوسری بات ہے کہ animal traits کو پھر sublimate کیا جاتا ہے۔ انسان کے اندرون میں حیوانی جبلیات ہیں۔ یہ جبلیات بھی اس کو رشتوں کے بندھن میں باندھتے ہیں۔
مال کی ہوس، سیکس کی ہوس، عہدے کی ہوس، وغیرہ اس کو رشتوں کے قریب لے جاتی ہے۔ دوسروں سے فوائد کی توقع اس کو رشتوں کو نبھانے کی دوڑ میں لگاتی ہیں۔ ان ہی رشتوں کو نبھانتے نبھاتے وہ جنگیں بھی کرتا ہے، قوانین بناتا ہے،اپنی حفاظت کے سامان مہیا رکھتا ہے، آخر کار انسان اپنی موت کے قریب پہنچ کر اس دار فانی کو خیرباد کہتا ہے۔ بات جنگلات سے شروع ہوئی تھی، پھر رشتوں کے مختلف شکلوں سے گزر کر آخرکار موت پر ختم ہوئی۔ اب یہ ایک انسان پر منحصر ہے کہ وہ سوچے، یہ سارے رشتے ناطے کیوں کر ہیں؟ قطع نظر اس کے کہ پہلے انسان کو رشتوں کا کوئی علم تھا کہ نہیں،لیکن آخر ان رشتوں میں کیا رکھا ہے۔کئی مہان شخصیات نےان دنیاوی رشتوں کو کچھ وقت کے لئے توڑا اور پھر جوڑا بھی، البتہ توڑنے سے جوڑنا عظیم ثابت ہوا۔ رشتے پہلے بھی تھے البتہ جب ان سے کچھ وقت کے لئے چھٹکارا حاصل کیا، تو ان کے اندر حقیقی جوت جگ گئی۔
اس سوال پرآج تک بہت غور کیا گیا ہے کہ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد کیا ہے۔Eat,merry and love کا ایک تصور ہے۔ دوسرا نظریہ آخرت کی خاطر اپنے آپ کو تیار کرنے پر زور دیتا ہے۔ کوئی دوسرا کہتا ہے کہ اس دنیا سے سنیاس لینا بہتر ہے۔ کوئی اور کہتا ہے کہ اسی سماج میں رہ کر دوسروں کے کام آنا زندگی ہے۔ دوسرا سوال اس سے بھی پیچیدہ ہے۔ جینے کے لئے کونسی چیزیں درکار ہیں۔مکان، پیسے،کھانا،کپڑے، دوائیاں، وغیرہ۔ ان سب نظریات میں کہیں رشتوں کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے، تو کہیں پر ان سے دور رہنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ جو سنیاسی بن جاتے ہیں، وہ رشتوں کے بندھنوں سے آزاد ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ سے رشتہ جوڑتے ہیں۔ اس کے برعکس جو سماج کا حصہ بن کے جیتے ہیں، وہ رشتوں کے درمیان جی کر آخرکار مرجاتے ہیں۔ شیخ نورالدین نورانی کا کہنا ہے کہ مال،اولاد اور اس سے جڑی ہوئی چیزیں فتنہ ہیں،یہ انسان کو حقیقی منزل تک پہنچنے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں، اللہ خالق ہے، اس کے لئے جینا، کامل جینا ہے۔ تو ایک بات واضح ہوگئی کہ رشتے آزمائش ہے۔ ان سے حد میں رہ کر میل ملاپ رکھنا ٹھیک ہے۔ کیا معلوم رشتوں کو نبھاتے نبھاتے ایک انسان، انسان ہی نہ رہے! یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان مطمئن نہیں ہوتا ہے۔ اس کی لالچ کی کوئی انتہا نہیں ، تو ایسے میں ایک ذی شعور انسان کا ان رشتوں میں اپنے آپ کو باندھنا جو اس کے مالک اور اس کے اصلی وجود کے خلاف ہو، عقل کے خلاف ہے۔ انسان لاچار ہے، اللہ کے در کا بھکاری ہے، سانس لینے کے لئے بھی اللہ کا محتاج ہے۔ اللہ نے اسباب مہیا رکھے ہیں، وہ اسباب جو اس کے یہاں قابل قبول ہو، وہ اپنانے کے لائق ہیں۔ اس میں رشتے بھی آسکتے ہیں البتہ شرط یہ ہے کہ اللہ سے جوڑے اور انسانیت کے اصول پر کھرا اُترے۔
مختلف دلائل پڑھنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حقیقی رشتہ اللہ کا رشتہ ہے۔ سارے رشتے تباہیوں کا عنصر چھپائے بیٹھے ہیں۔ البتہ اللہ کا رشتہ خیر ہی خیر ہے۔ دو لاکھ سال پہلے انسان کو بھی اللہ نے قبیلوں میں رہنے کی ترغیب دی۔ Intellectual revolution ہو یا material revolution یہ اللہ کے احکام سے ہی ہوتے ہیں۔ مختلف اوقات میں کیسے بھی رشتے ہوں، سب سے دائمی رشتہ اللہ کا ہے، اللہ ابتداء ہے اور انتہا بھی اللہ ہی ہے۔ اب اگر انسان فانی رشتوں میں رہ کر دائمی کو ٹھکرا دے، یہ سراسر بیوقوفی ہے۔انسان کو رشتوں کا تعین سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ ان رشتوں کو گلے لگائے جن سے وہ اللہ کے قریب آجائے۔ جو خداسے رشتہ قائم کرنے میں کامیاب ہوا،اُسے پھر کسی اور سے رشتہ جوڑتے کی ضرورت نہیں ہے۔