Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

شمس کمال انجم

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: February 4, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
10 Min Read
SHARE
 
شاعری میں مثبت سوچ اور فکر کو تمام تر لسانی، فنی اورجمالیاتی محاسن کے ساتھ برتنا آسان نہیں۔ لیکن معاصر اردو شاعری میں شمس کمال انجم کا نام اسی بنا پر اپنی ایک منفرد شناخت کا حامل ہے کہ روز مرزہ کی زندگی کی طرح شاعری میں بھی مثبت اور تعمیری قدروں کو برتنا شمس کمال انجم کی فطرت میں شامل ہے۔ شمس کمال انجم کی غزلوں کے مجموعہ ’’لولوء منثور‘‘ سے شعر بہ شعر گذرتے ہوئے بار بار یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر چند کہ شمس کمال انجم اردو کے صف اول کے معاصر غزل گوشعراعرفان صدیقی، عالم خورشید، سلطان اختر، عبد الاحد ساز، رفیق راز، خالد بشیر اور شفق سوپوری وغیرہ کے بعد کی نسل کے شاعر ہیں لیکن شمس کمال انجم کی غزل بولتی ہے کہ صرف اس بناپر ان کے شاعرانہ انفراد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں عربی ،اردواور اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ ڈاکٹر شمس کمال انجم کا شمار عربی زبان وادب اور اسلامیات کے حوالے سے برصغیر کے معتبر محققین اور ناقدین میں ہوتا ہے۔قدیم وجدید عربی زبان وادب کی تاریخ پر گہری نظر کی بنا پر شمس کمال انجم کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ مختلف ادبی، سماجی وثقافتی موضوعات پر ان کے مضامین آئے دن شائع ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو شمس کمال انجم بنیادی طور پر شاعر ہیں اور ان کی شاعری ، ذات ، زندگی اور زمانہ سے متعلق حقائق ومسائل وتجربات ومشاہدات کے اظہار کا بہانہ ہے۔ خلوص ، رواداری اور منکسر المزاجی ان کی شخصیت کے لازمے ہیں۔ اپنی شاعر ی کے بارے میں نہایت سادہ لوحی سے وہ کہتے ہیں۔
میں چھوٹا موٹا شاعر ہوں اشعار بھی کچھ کہہ لیتا ہوں
میں غالب وفیض وفراق وجگر اقبال یا جوش ومیر نہیں
……
گو میرؔ جیسے ہم بڑے شاعر نہیں ہیں شمسؔ
پر فکر وفن کے ہم نے بھی جوہر دکھائے ہیں
انکساری شرفا اور خصوصیا جینوین شعراء کی طبیعت کا حصہ رہی ہے۔ میر تقی میر ؔہوں کہ غالبؔ، اقبالؔ ہوں کہ جگرؔ، فراقؔ ، فیضؔ سبھی بڑے شاعروں نے الگ الگ عنوان سے فکر وفن کے خوب جوہر دکھائے ہیں لیکن غالب سے قطع نظر کہ ان کا سات خون معاف ہے، کسی نے بھی اپنے شاعر ہونے پر غرور یا تفاخر کابھی اظہار شاید باید ہی کیا ہے۔ شمس کمال انجم نے بھی انکساری برتی ہے لیکن ان کی شاعری گواہی دیتی ہے کہ وہ ایک منفرد شاعر ہیں اور اپنی شاعری میں فکر وفن کی علویت کا مظاہرہ کمال شاعرانہ محاسن کے ساتھ کیا ہے۔ در اصل معاملہ یہ بھی ہے کہ گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی وغیرہ کی گروہ بندیوں کی وجہ سے سینکڑوں جینوین شاعر اور ادیب نظر انداز ہی کیے جاتے رہے ہیں۔ شمس کمال انجم بھی ان میں سے ایک ہیں۔ ان کی شاعری کے امتیازات کی جانب بھی اتنی توجہ مبذول نہیں کی گئی ہے جتنی توجہ کی حقدار ان کی شاعری ہے۔ لیکن شمس کمال انجم کے معاصر شعراء میں نمایاں نہ ہونے کے اور بھی اسباب ہیں۔ سب سے بڑا سبب خود شمس کمال انجم کی بے نیازی ہے۔ فطری شاعر ہیں۔ شعر کہنے میں رفتار سست نہیں لیکن چھَپنے چھَپانے کے معاملے میں درویشی کو روا رکھتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ روایت پسندی، کلاسیکیت، ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے مرحلوں سے مردانہ وار گذر جانے کے باوجود شمس کمال انجم کی آواز ان کی اپنی آواز ہے۔ کسی بھی طرح کی فیشن پرستی ، تقلید یا تصنع سے آزاد، ان کی غزل عام غزل گو شعرا کی طرح محض حسین اور پرکشش لسانی سانچوں تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر تعمیر ی فکر ودانش اور تجربہ ومشاہدہ کے روشن نقطے اور دائرے ہوتے ہیں۔ چند اشعار سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
شمس کمال انجم کے شعری مجموعے کی پہلی غزل دیوان غالب کی غزل کی زمین میں ہی ہے لیکن اشعار میں مضامین کی تخم ریزی اپنے مزاج کے مطابق کی ہے مثلا:
حرف آخر گرچہ ہے لکھا ہوا تقدیر کا
معجزہ بھی رنگ لاتا ہے بہت تدبیر کا
صدق گوئی جذبۂ فرہاد کی طالب ہے شمسؔ
حفظ ایماں آج کل لانا ہے جوئے شیر کا
غالبؔ کے چراغ سے اپنی شاعری کی قندیلیں روشن کرنا، ذوق شعری کی علویت کی دلیل ہی تصور کیا جائے گا۔ لیکن بے پناہ تخلیقی جوہر اور اختراعی قوت کے مالک شمسؔ کمال انجم کے یہاں غزل در غزل نئی زمین اور نئے آسمان بھی نظر آتے ہیں۔
ذات کے حوالے سے اپنے ماحول اور معاشرے کے کرب کا اظہار غزل گویوں کا وطیرہ رہا ہے۔ لیکن شمس کمال انجم اسے اپنی انداز میں بیان کرتے ہیں:
صحرا میں دھوپ اوڑھ کے بیٹھے ہوئے ہیں ہم
تشنہ لبی کی آنچ سے جھلسے ہوئے ہیں ہم
……
کوئی غم یا عذاب سا کچھ ہے
دل میں اک عذاب سا کچھ ہے
لیکن شمسؔ کمال انجم کو اپنی ذات سے زیادہ اپنی قوم کی فکر ستاتی ہے آج مختلف اسباب کی بناء پر قوم کو جن ناگفتہ بہ چیلنجوں کا سامنا ہے اس کے لیے کون ذمہ دار ہے یہ سب جانتے ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اس صورت حال میں بھی ہماری قوم غور وفکر ، فراست مومن سے کام لینے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہم الزام دوسروں کو دیتے ہیں لیکن قصور اپنا بھی ہوتا ہے۔شعر ملاحظہ کریں۔
ہر روز مجھ پہ لگتی ہیں تہمت نئی نئی
آنگن میں روز آتے ہیں پتھر نئے نئے
……
خواب تو آتے ہیں تعبیر نہیں آتی ہے
قاریِ وقت کو تفسیر نہیں آتی ہے
 
قوم مسلم تو ہے خوابیدہ توکل پڑھ کر
ارتقاء کی اسے تدبیر نہیں آتی ہے
………
کچھ سوچتے نہیں ہیں کسی مسئلے پہ اب
جذباتیت کے بحر میں ڈوبے ہوئے ہیں ہم
………
ثابت حقیقتوں کی طرف دیکھتے نہیں 
مفروضہ داستانوں میں الجھے ہوئے ہیں ہم
عام احساس یہ ہے کہ بیسویں صدی کی ساتویں آٹھویں دہائی کے معتبر شعرا مظہر امام، ناصر کاظمی، شہر یار، افتخار عارف، بانی، ساقی فاروقی ، ظفر اقبال اور محمد علوی وغیرہ سے الگ اور آگے اکیسوی صدی کی اردو غزل میں نئی اور معتبر آوازیں سامنے نہیں آرہی ہیں۔ نام لینا چاہیں تو چار پانچ نام لینے میں پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ اس کے اسباب کیا ہیں؟ در اصل یہ ہے کہ یہ دور ہی قدروں کی شکست وریخت کا ہے۔ غیر یقینی صورت حال اور کنفیوزن نے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح شعر وادب کو بھی بڑا ذہن پیدا کرنے کے معاملے میں ’بانجھ‘ کردیا ہے۔ ادب میں بھی ’’روز اک تازہ تماشہ نئے عنوان کے ساتھ‘‘ کی کیفیت نے عام انسانوں کی طرح تخلیق کاروں سے بھی فیصلہ کرنے کی صلاحیت چھین لی ہے کہ کون سا راستہ کعبے کی طرف جاتا ہے او رکون ترکستان کی طرف۔ معاصر اردو شاعری میں اکتادینے والی یکسانیت کے علاوہ مختلف اور متضاد لسانی وموضوعاتی ، فنی اور فکری اور اظہار وبیان کے اعتبار سے جو انتشار اور بحران نظر آرہا ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کی تاریخ میں شاعری تو ہورہی ہے لیکن ایسی شاعری جو قلب کو گرمادے، روح کو تڑپادے، تقریبا نا پیدا ہوچکی ہے۔ اس صورت حال میں، عرفان صدیقی ، احمد مشتاق، سلطان اختر ، عالم خورشید، خالد بشیر ، رفیق راز ، شفق سوپوری اورمہتاب حیدر نقوی وغیرہ کے ساتھ شمس کمال انجم کی شاعری میں بھی تازہ ہوا کے جھونکے محسوس ہوتے ہیں۔ اور غزل / شاعری کے امکانات کی شمعیں روشن ہوتی نظر آتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ شمس کمال انجم کی شاعری میں ترقی پسندوں کی طرح کھلی نعرہ بازی ہو یا اقبال کی طرح انقلابیت ہو بلکہ شمسؔ کی شاعری میں دھیمے اور مہذب لب ولہجے میں فکر خیال اور سیرت وکردار کو تعمیری سانچے میں ڈھالنے کا ایک آہستہ رد عمل ملتا ہے۔ اسی لیے شمس کے اشعارسنے یا پڑھنے کے ساتھ ہی قاری کے دل ودماغ میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ شمس کمال انجم کے مجموعۂ غزلیات ’’لولوء منثور‘ کے مطالعے کے بعد قاری کو اس کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔
رابطہ09419010472
Email: [email protected]
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

صدرِ جمہوریہ نے لداخ ایل جی کو ’گروپ اے‘سول سروس عہدوں پرتقرری کا اختیار دیا چیف سیکرٹری اور ڈی جی پی کی تقرری کے لیے مرکزی حکومت کی منظوری بدستور لازمی
تازہ ترین
پونچھ ضلع جیل میں جھگڑے میں  قیدی زخمی
پیر پنچال
جموں و کشمیر میں موسلا دھار بارشیں، محکمہ موسمیات نے الرٹ جاری کیا
تازہ ترین
جموں میں جعلی سیفائر ریکیٹ کا پردہ فاش: حیدرآباد متاثرہ کو 62 لاکھ روپے واپس: پولیس
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?