Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

ابلیس کا ساتھی

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: December 8, 2018 10:08 pm
Kashmir Uzma News Desk
Share
14 Min Read
SHARE
سورج کو غروب ہوئے کوئی بیس منٹ گذرے تھے۔محلے کی مسجدسے اذان کی آواز آرہی تھی ۔ میں نماز مغرب کے لئے وضوبنانے جا رہا تھا۔ دروازے سے باہر نکلتے ہی میرے کانوں میں کچھ عجیب و غریب آوازوں نے جنم لیا۔اس طرح کی آوازیں اس سے قبل میں نے کبھی نہ سنی تھیں۔کافی خوفناک تھیں اور ایسا لگ رہا تھا گویا جنگ کا آغاز ہونے کو ہے۔ گھر کی چار دیواری کی وجہ سے میں ارد گرد کا جائزہ نہیں لے سکا اس لئے چھت پر چلا آیا۔ میں نے پورے محلے کا ایک سرے سے دوسرے سرے تک بڑے غور سے جائزہ لیا مگر کچھ سمجھ نہ آیا۔ اب آوازیں بھی ختم ہو چکی تھیں۔ میں پلٹ کر اندر جانے کو تھا کا کہ اچانک میں نے دیکھامحلے کے باہر جہاں سے جنگل کا آغاز ہوتا ہے ایک عجیب قسم کی بلا خاموشی سے زمین پر بیٹھ رہی ہے۔ منظر خوفناک تھا مگر مجھے ڈرنے کی عادت نہ تھی۔ وہ کیا چیز تھی کوئی جہاز،بھوت یا پھر کوئی شرار اس کا اندازہ لگانا مشکل تھا ۔مگر میرے ذہن میں زیادہ شبہ جہاز پر تھا۔ لیکن اس کے ساتھ نہ کوئی لائٹ تھی، نہ پنکھے اور نہ ہی مشینری والی کوئی آواز۔ بالکل ایک سایئے کی مانند وہ مجھے زمین پر بیٹھتے ہوئے دکھا۔ 
کافی وقت گذر گیا مگر وہاں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ میں نے جلدی سے اپنا موبائل لیا اور بندوق اٹھاکے جنگل کی طرف روانہ ہوگیا۔ میں سائنس کا ایک ریسرچ اسکالر تھا اسلئے اس طرح کے نظاروں کی کھوج کرنا میری عادت بھی تھی اور میرا شوق بھی۔ لگ بھگ دس منٹ کے بعد میں اس جگہ کے قریب پہنچا۔ وہ جگہ جہاں وہ شے بیٹھی تھی ابھی بیس تیس قدم دور تھی۔ارد گرد میں گھنے پیڑ اور جھاڑیاں ہونے کی وجہ سے میرا اس جہاز کو دیکھ پانا ابھی مشکل تھا ۔ لیکن اب میں چوکنا ہو چکا تھا۔ میں آہستہ آہستہ خاموشی سے اور چار آنکھوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ آس پاس میں نہ کوئی حرکت ہو رہی تھی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی آواز ۔ میرے ذہن میں کئی طرح کے سوالات جنم لے رہے تھے۔ یکدم میں نے اپنے قدم روک لئے۔ مجھے خیال آیا کیوں نہ پولیس کو خبر کر دی جائے۔ ہوسکتا ہے کسی بیرونی ممالک کا یہ کوئی منصوبہ ہو اور میں اپنے پاگل پن کی وجہ سے بلی کا بکرا بن جاوں۔ میں کچھ قدم پیچھے ہٹا اور اپنا موبائل نکالا۔ موبائل میں نیٹ ورک نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ میں نے اپنا موبائل جیب میں ڈالا اور تیزی سے جہاز کی طرف بڑھنے لگا۔ ہاتھ میں بندوق تھی اور زبان پر کلمہ۔ 
میں بالکل وہیں جا پہنچا جہاں وہ شے بیٹھی تھی۔ ارد گرد نظریں دوڑائی مگر وہاں کچھ بھی نظر نہ آیا۔  اچانک ایک گھنی جھاڑی میں سے لال رنگ کی پتلی سی روشنی میری آنکھوں پر پڑی۔ شام ڈھل چکی تھی اور تاریکی آہستہ آہستہ جنگل کے ہر ذرے پر محیط تھی۔ میں اسی تاریکی میں آہستہ آہستہ اس روشنی کی طرف بڑھا۔ خاموش قدموں کے ساتھ میں نے بالکل جھاڑی کے پاس اپنے موبائل کی روشنی جلائی۔ میرے سامنے کسی بڑے پہاڑ کی مانند ایک عجیب سی شے تھی۔ اس کا پورا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ واقعی کوئی جہاز ہی ہے۔ مگر میں نے اس سے طرح کا جہاز اس پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہاں ارد گرد کوئی موجود نہ تھا اور اس کی کھلی کھڑکی کو دیکھ کر میں اپنے موبائل کی روشنی کے سہارے اس کے اندر داخل ہوگیا۔ اندر ونی حصہ کافی پھیلا ہوا تھا۔ وہاں بیٹھنے کی بھی بڑی شاندار جگہ تھی۔ میں نے اپنی توجہ کو ادھر ادھر سے کھینچا اور ایک بار پھر کوشش کی کہ پولیس کو خبر کردوں مگر نیٹ ورک اب بھی نہ تھا۔میری توجہ ابھی موبائل کی ہی طرف تھی کہ اچانک ٹک ٹک کی سی آواز میرے کانوں میں گونجی۔ میں نے یک دم کھڑکی کی طرف دیکھا جو بند ہو چکی تھی۔ جلدی سے بے چینی میں اٹھا اور کھڑکی کو کھولنے کی کوشش کی مگر وہ تو ایسے چپک گئی تھی کہ گویا جہاز کی دیوار کا ہی حصہ ہو۔ اسی اثنا میں جہاز کے اندر رنگ برنگ کی بستیاں جل پڑیں اور ہلکی ہلکی سی آوازیں بھی نمودار ہونے لگیں۔ میں جہاز سے نکلنے کی لگاتار کوشش کرتا رہا ۔ کچھ ہی دیر کے بعد وہ جہاز زمین کو چھوڑ کر حلاء میں گول گول گھومنے لگا۔ اب میری ساریں امیدیں اور ساری ہمت ختم ہو گئی ۔ میں نے سوچ لیا کہ میں اپنی زندگی جو تھی وہ جی چکا ہوں۔ اب جو لمبے بچے ہیں وہ موت کے دیدار کے لئے ہیں۔ میں بالکل ہمت ہار کر ، آنکھوں میں آنسوں لئے اور ذہن میں کئی ادھوری خواہشوں کا دکھ لئے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔کچھ دیر بعد میرے سامنے والے حصے سے ایک دروازہ کھلا اور تین عجیب و غریب قسم کے انسان نمودار ہوئے۔ میں اُن کو دیکھتے ہی ڈر گیا۔ معلوم نہیں کہ سچ مچ میں انسان تھے یا جانور۔ ہاں !مگر ڈھانچہ انسانوں کے جیسا تھا۔ جسم پر کپڑوں کا نام و نشان نہیں مگر پورے جسم پر گھنے بالوں کی چادریں ضرور تھیں۔ چہرے تو انسانوں کی مانند تھے مگر کان لمبے لمبے،ہونٹ بھی قدرے بڑے، دانت نہایت ہی پتلے اور  سر اور داڑھی کے بال بھی لمبے مگر سنوارے ہوے نظر آرہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گو یا انسان ہی بگڑ کر نئی شکل اختیا ر کئے ہوئے ہیں ۔ کچھ دیر تک تو میں ان کو دیکھتا رہا پھر یقین ہوگیا کہ یہ جان نکالنے والے فرشتے ہیں۔ ان میں سے ایک میرے قریب آکر بیٹھ گیا ۔ میں نے دیکھا اس کے ہونٹ پھڑپھڑا رہے تھے اور اس کی نظریں مجھ پر ٹھہری ہوئی تھیں۔ میں نے کلمہ پڑھنا شروع کردیا تھا کہ اچانک اس نے میرے منہ پر پھوک ماری ۔ جلد ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ بس اس کے بعد میرے ساتھ کیا ہوا مجھے کچھ پتہ نہیں۔ 
جب میری آنکھیں کھلی تو میں روشنی سے بھرے ہوئے ایک کمرے میں تنہا پڑا ہو ا تھا۔ کمرے کی دیواروں پر کئی ٹی وی اسکرین اور جگہ جگہ تاریں بکھریں ہوئی تھیں۔ میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔ میں نے اٹھنے کی ہمت کی تو محسوس ہوا جیسے مجھے کس کے باندھا گیا ہے۔ میں نے سامنے کی چمکتی ہوئی دیوار پر اپنا عکس دیکھنے کی کوشش کی۔ میں واقعی ہی بندھا ہوا تھا اور میرے سر اور ہاتھوں پر بڑی بڑی مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ میں اپنی یہ حالت دیکھ کر زور سے اٹھنے لگا کہ دروازہ بھی کھل گیا۔ چار پانچ اسی قسم کے لوگ آئے اور آتے ہی مجھے کھولنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں انہوں مجھے آزاد کردیا۔ اس کے بعد وہ مجھے وہاں سے باہر لے آئے اور ایک بڑے سے ہال میں چمکتی ہوئی ایک شاندار کرسی پر بیٹھایا۔ وہ ہال اس قسم کے انسانوں سے بھرا ہوا تھا اور سب کے سب مجھے حیرانگی سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر کے بعد ایک شحص میری دائیں طرف کے کونے سے گونجنے لگا ۔ یہ لوگ، جو مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے، اب اس کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا اور میں اس ماجرے کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ آ خر بے بس ہو گیا۔ میرے صبر کا پیمانہ ٹوٹ گیا اور میں زور زور سے چلانے لگا۔ وہ سارے میرے ارد گرد جمع ہوگئے اور میری طرف ہاتھ ہلانے لگے۔ میں چلا چلا کر ان کو پوچھ رہا تھا کہ تم کون ہو ۔ آگے سے وہ بھی چلا رہے تھے مگر میری سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ لوگ مجھے وہاں سے کسی دوسرے کمرے میں لے گئے ۔ مجھے ایک کرسی پر بیٹھایا اور میرے کانو ں میں ایئرفون کی مانند کوئی چیز لگائی۔ ان میں سے ایک نے اسی طرح کا ایئرفون لگایا اور میرے سامنے بیٹھ گیا۔ ’’ سلام میرا نام ماقین ہے ،کیا تم میری باتیں سمجھ رہے ہو‘‘ اس کی زبان اردو میں تبدیل ہوکر ایئرفون کے ذریعے میرے کانوں میں سنائی دے رہی تھی۔ ’’ ہاں سمجھ رہا ہوں‘‘ میں نے جواب دیا۔ 
’’ تم پریشان نہ ہو، یہاں تم بالکل با حفاظت ہو‘‘ 
’’ آپ لو گ کون ہیں اور میں کہاں ہوں‘‘ 
’’ ہم بھی تمہاری طرح انسان ہیں مگر ہمارا سیارہ آپ سے الگ ہے۔ تم اس وقت زہرہ نامی سیارے پر ہو‘‘ 
میں یہ بات سنتے ہی حیران رہ گیا چونکہ میں سمجھتا تھا کہ میں مر چکا ہوں ۔ اس لئے میرے اندر اب خوف سرائیت کر گیا تھا اور میں جان چکا تھا کہ اگر میں زندہ ہوں مگر ان کے جال میں پھنس چکا ہوں ۔ میں نے اب کی بار ڈرتے ہوے کہا’’ میں زندہ ہوں اور یہاں؟‘‘
’’ ہاں تم بالکل زندہ ہو اور جہاں سے تم کو لایا گیا ہے وہیں حفاظت سے تمہیں چھوڑ دیا جائے گا ‘‘
’’ لیکن مجھے یہاں لانے کا مقصد کیا ہے‘‘
’’ ہمیں زمینی انسان پر کچھ تجربے کرنے تھے اور بہت سارے رازوں کو سمجھنا تھا ،خاص طور پر انسان کو سمجھنا تھا۔ اس لئے تم پر کچھ مشینی ٹیسٹ کیے اور بہت ساری معلومات حاصل ہوئیں اب تمہارا یہاں کوئی کام نہیں۔ ‘‘
میرے ذہن میں اس وقت کئی سوالات طوفان مچا رہے تھے مگر خوف کی وجہ سے میرا منہ کھل نہیں رہا تھا۔ میں نے گبھراتے ہوئے ایک اور بے تکا سا سوال کیا۔ ’’ آپ ہماری دنیا کے بارے میں مجھ سے زبانی بھی پوچھ سکتے تھے نا؟‘‘
’’ بالکل ! مگر ہم کوئی خطرہ نہیں لینا چاہتے تھے۔ہر جاندار جانتا ہے کہ تم لوگ اپنے فائدے اور نقصان کے لئے کچھ بھی بول سکتے ہو ۔ جو چیز تمہاری عظمت ہوا کرتی تھی اب ختم ہوچکی ہے۔اب جو ہیں وہ ابلیسی اوصاف ہیں اس لئے ہمیں یہی کرنا تھا۔‘‘
’’ ابلیسی اوصاف اور ہم میں! کیا مطلب؟‘‘
’’ ہاں سارے جانداروں میں تو یہی ہا ہا کار ہے اور ہمارے سیارے والوں نے تو اس پر باقاعدہ تجربے بھی کئے ہیں۔ نتیجہ ہر ایک کا یہی ہے کہ تمہارے سیارے پر اب ابلیس کی حکومت ہے‘‘
یہ سنتے ہی میں خاموش ہوگیا۔ وہ بھی کافی دیر تک میرے چہرے کو دیکھتا رہا اور پھر ’’ چلو تمہارا واپس جانے کا وقت آگیا‘‘ کہتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے ان لوگوں نے اپنے ساتھ لیا اور محل سے باہر نکل آئے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے۔ یہ سب شائد میرے دیدار کو ہی آئے تھے، اسی لئے مجھے دیکھتے ہی سب حیرت زدہ ہوکر میرے قریب آنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہی جہاز، جس پر میں آیا تھا، میرے سامنے کھڑا تھا اور تین چار آدمی مجھے پکڑے ہوئے اس کی طرف لے جا رہے تھے۔ میں جہاز کے پاس پہنچتے ہی کھڑکی کو کھلی دیکھ کر اندر داخل ہوگیا۔ میں سیٹ پر بیٹھ ہی رہا تھا کہ اچانک بند ہوتی کھڑکی سے بھیڑ کا ایک نعرہ ایئرفون کی ذریعے میرے کانوں سے ٹکرایا’’ ابلیس کا ساتھی‘‘ اسی اثنا میں جہاز نے زہرہ سے زمیں تک کا سفر شروع کردیا۔
پونچھ، جموں
پی ایچ۔ ڈی اسکالر دہلی یونی ورسٹی،موبائل نمبر؛7006909305
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

وزیر اعلیٰ نےآج اُس بے بسی کا تجربہ کیا جس کا روزانہ ہر کشمیری کو سامنا کرنا پڑتا ہے: میرواعظ
تازہ ترین
نرس کو بچانے کی تمام کوششیں ناکام، مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی
برصغیر
وزیر اعلیٰ کیساتھ بدسلوکی کے معاملے میں ملوث افسران و اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے: نیشنل کانفرنس
تازہ ترین
ممتا بنرجی کا عمر عبداللہ کے مزارِ شہداء جانے سے روکنے پر شدید ردعمل،کہا شرمناک، ناقابل قبول اور چونکا دینے والا اقدام
برصغیر

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ماسٹر جی کہانی

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ضد کا سفر کہانی

July 12, 2025

وہ میں ہی ہوں…! افسانہ

July 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?