مارکیٹ میں کیلی فورنیا اور چلی سے درآمدہ گری متعارف
سرینگر //پہلے سے ہی زوال پذیر اخروٹ کی صنعت سے وابستہ افراد نے نئی اُمید اور نئی پہل کے ساتھ پھر سے اس شعبہ سے منسلک ہو کر کاروبار شروع کر دیا ہے، کیونکہ اب وادی میں بیرون ممالک سے اخروٹ کے اعلیٰ قسم کے پودے تیار کئے جارہے ہیں جو کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار دیں گے۔کشمیری اخروٹ کا کوئی ثانی نہیں ہے لیکن حالیہ برسوں میں اخروٹ کے درخت بڑے پیمانے پر کاٹے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔حالانکہ اخروٹ کے درخت صرف پیدوار حاصل کرنے کی غرض سے نہیں لگائے جاتے رہے ہیں۔بلکہ اخروٹ کی لکڑی سب سے مہنگی تصور کی جاتی ہے جس پر نقش نگاری کر کے اسے رہائشی مکانوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور ووڈ کارونگ کیلئے بھی بہت مہنگی مانی جاتی ہے۔مکانوں میں استعمال ہونے اور اخروٹ کی لکڑی پر نقش نگاری شعبہ کیساتھ ہزاروں مزدور، کاریگر اور دیگر لوگ منسلک ہیں۔وادی میں اخروٹ اکنامی کو تحفظ دینے کیلئے 1969میں ایک قانون بنایا گیا جسے جموں کشمیر خصوصی درختوں کے تحفظ کا قانون کہا جاتا ہے۔
اس قانون کے تحت سرکاری ہو یا پرائیویٹ اراضی، اخروٹ کے درختوں کو کاٹنے یا انکی شاخ تراشی کرنے کی ممانعت ہے۔البتہ اگر کوئی اخروٹ کا درخت عوامی املاک یا جانی نقصان کیلئے خطرہ ہو، تو اسکے لئے قانون کے تحت باضابطہ طور پر ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے کہ مقامی پٹواری کو درخواست دی جاتی ہے جو تحصیلدار کے توسط سے ڈپٹی کمشنر تک اور وہاں سے صوبائی کمشنر کے آفس تک پہنچ جاتی ہے، جس کے بعد وہاں سے درخت کا معائنہ کرنے کیلئے ایک ٹیم تشکیل دی جاتی ہے اور ٹیم کی سفارش پر ہی بعد میں درخت کاٹنے کی اجازت ملتی ہے۔لیکن عام طور پر وادی کے دوردراز علاقوں میں اخروٹ کے درختوں کو بری بیدردی کیساتھ کاٹا جاتا ہے اور رہائشی مکانوں کیلئے لکڑی فراہم کی جاتی ہے۔اسکے علاوہ لکڑی پر نقش نگاری کیلئے بھی غیر قانونی طور پر اخروٹ کاٹے جارہے ہیں ۔ہنڈی کرافٹس صنعت میں اسکی لکڑی کی مانگ بہت زیادہ ہے جو سب سے زیادہ قیمتی بھی ہے، جو میوہ کے بعد دوسری سب سے بڑی صنعت کے طور پر ابھر رہی ہے ۔ ایک سرسری اندازے کے مطابق پچھلے 10برسوں میں دس ہزار سے بھی زائد اخروٹ کے درخت کاٹے گئے ہیں اور انکی جگہ یا تو سیب کے درخت لگائے گئے ہیں یا پھر اخروٹ کیلئے استعمال ہونے والی اراضی کو رہائشی مکانوں کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔اخروٹ ان علاقوں میں پائے جاتے ہیں جو ہمالیائی علاقے کے نزدیک ہیں جن میںہماچل پردیش، اترا کھنڈاور ارونا چل پردیش شامل ہیں۔بھارت میں90فیصد پیداوار جموں کشمیر میں ہوتی ہے ۔ وادی کے شمالی کشمیر میںکپوارہ اور شوپیان و پلوامہ اضلاع میںخاص طور پر اخروٹ کی پیدوار ہوتی ہے۔لیکن حالیہ برسوں میں ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں امریکی ریاست کیلی فورنیا اور چلی کی گری مارکیٹ میں آنے سے کشمیری گری کی قیمتیں کم ہو گئی ہیں ۔
بھارت میں اس وقت سب سے زیادہ کیلی فورنیا اور چلی سے گری آرہی ہے اور گری کی سب سے زیادہ کھپت بھی بھارت میں ہے اور اُس کے یہاں آنے سے کشمیری گری مارکیٹ سے باہر ہو رہی ہے ۔اس سے قبل بیرون ریاستوں خاص کر ممبئی میں کشمیر سے 100فیصد گری جاتی تھی لیکن اب وہاں صرف 10فیصد مال ہی جاتا ہے۔2019میں قومی ہارٹیکلچر بورڈ کے اعدادوشمار کے مطابق یہاںسالانہ 206.43میٹرک ٹن اخروٹ کی پیداوار ہوتی ہے۔ جموں کشمیر میں 69.24ہزار ہیکٹیراراضی پر درخت پھیلے ہوئے ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق2017.18میں کشمیر میں 47,507ہیکٹیراراضی پر اخروٹ کے درخت تھے اور اُس سال 1,85,626میٹرک ٹن پیداوار ہوئی تھی۔ اس صنعت سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ خشک میوہ اخروٹ لوگوں کے روزگار کا ایک بڑا ذریعہ ہے لیکن گذشتہ کئی برسوں سے منڈیوں میں مندی ہونے سے اس کاروبارسے وابستہ افراد پریشان ہیں کیونکہ انہیں وہ قیمتیں نہیں مل رہی ہیں جو اس سے قبل تھیں۔انہوں نے کہا کہ پچھلے کچھ برسوں کے دوران وادی میں اخروٹ کی گری کی قیمتوں میں 60فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ۔ ڈرائی فروٹ ایسوسی ایشن کے صدر بادر خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس صنعت کے ساتھ 60فیصد لوگ وابستہ ہیںاور گذشتہ کئی برسوں سے مقامی منڈیوں میں مندی نے اس کاروبار کو کافی متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری اخروٹ کویورپی ملک چلی اور دیگر ممالک سے آنے والے اخروٹ نے مارکیٹ سے باہر کر دیا ہے ۔بادر خان نے کہا کہ یہ صنعت پہلے سے ہی زوال پذیر تھی لیکن اب 5فیصد جی ایس ٹی نے پھر سے لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے ۔ محکمہ باغبانی کا کہنا ہے کہ شعبہ کونئی جہت دینے کیلئے محکمہ نے یورپی ممالک تھائی لینڈ اور اٹلی سے اعلیٰ کوالٹی کے پودے لا کر ان کی شجرکاری کی ہے جس سے کسانوں اور کاشتکاروں کی آمدن میں کئی گناہ کا اضافہ ہوگا ۔محکمہ کا دعویٰ ہے کہ روایتی کاشتکاری نظام سے ہائی ٹیک کاشتکاری کے نظام میں منتقلی کے ذریعے پھلوں کی فصلوں کی پیداوارمیں اضافہ کا امکان ہے ۔ محکمہ کے مطابق اخروٹ کی’ چینڈ لر اس‘ نامی نئی قسم لائی گئی ہے، جوکاشتکاروں میں تقسیم کی جائے گی۔محکمہ باغبانی کے ڈائریکٹر اعجاز احمد بٹ نے کہا کہ محکمہ اخروٹ کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ محکمہ نے شمالی ،جنوبی اور وسطی کشمیر میں تین اعلیٰ معیار کی نرسریاں قائم کی ہیں جس کے سبب اخروٹ کے معیار اور پیداوار میں بہتری آئے گی۔