رینگر //محکمہ پشو اوربھیڑ پالن میں 40فیصد ڈاکٹروں اور فیلڈ عملے کی کمی کے نتیجے میں اس شعبہ کے ساتھ منسلک لوگوں کو انتہائی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جبکہ محکمہ کا کام کاج بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔جموں وکشمیر میں کئی ایک سینٹروں پر ایک ہی ملازم کو دوسے تین سینٹروں پر تعینات رکھا گیا ہے اور ڈاکٹروں کی جو100کے قریب اسامیاں پبلک سروس کمیشن کو ریفر کی گئی ہیں، اس جانب بھی کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا ہے ۔محکمہ میں موجود ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کشمیر وادی میں 60فیصد لوگ مویشی پروری کے ساتھ وابستہ ہیں جبکہ دور افتادہ علاقوں میں زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش ہی اسی پر منحصر ہے تاہم پوری وادی میں اس محکمہ میں عملہ کی شدید قلت ہے ۔کپوارہ ضلع میں اس وقت 50فصد لوگ مال مویشی پالتے ہیں لیکن یہاں اس وقت کل 6ویٹرنری بلاکوں میں صرف 3ہی بلاکوں میں ویٹرنری افسر تعینات ہیں اور 3افسران کی کرسیاں کئی برسوں سے خالی پڑی ہیں اور وہا ں عملے کو تعینات کرنے میں لیت لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ اسی طرح فیلڈ سٹاف کی بھی 50کے قریب اسامیاں خالی ہیں ۔ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کئی ایک ڈاکٹروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر اثر ورسوخ کی بنیاد پر تعینات کیا گیا ہے ۔کرناہ میں ، گبرہ ، ٹنگڈار اور ٹیٹوال میںبھی ایک ہی ڈاکٹر تعینات ہے جبکہ وہاں پر فیلڈ عملہ کی بھی شدید قلت پائی جا رہی ہے ۔ اسی طرح کپوارہ میں محکمہ شیپ میں بھی فیلڈ عملہ کی خاصی کمی ہے ۔اس وقت 37فیصد سٹاک کم بتایا جا رہا ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ کپوارہ کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی محکمہ میں 40فیصد عملہ کی کمی ہے ۔ شوپیاں ، بڈگام ، پلوامہ ، کولگام ، اننت ناگ ، بانڈی پورہ اور گاندبل میں بھی عملہ کی کمی ایک سنگین مسئلہ بنی ہوئی ہے جبکہ محکمہ کے اعلیٰ افسران نے کئی بار اس تعلق سے سرکار کو آگاہ کیا لیکن اس جانب کوئی بھی دھیان نہیں دیا گیا اور نتیجے کے طور پر اس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مال مویشی بیمار ہو جاتے ہیں یا پھر انہیں معمولی زخم لگتے ہیں تو انہیں سینٹروں پر عملہ نہیں ملتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی ایک مویشی بغیر علاج کے ہی دم توڑ دیتے ہیں ۔محکمہ پشو پالن کے پرنسپل سکریٹری نوین کمار چودھری نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ محکمہ کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ عوامی حکومت سے لیکر آج تک جس کو بھی من کرتا ہے وہ نئے سینٹروں کو کھولنے کا علان کر دیتا ہے، لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا ہے اس کیلئے عملہ کہاں سے دستیاب ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ اگرسینٹروں کو قائم کیاگیا ہے، تو ان کیلئے اسامیاں بھی معرض وجود میں لانی ہیں۔ ۔انہوں نے کہا کہ اگر اسامیاں وجودمیں لائی بھی جاتی ہیں، تو وہ پہلے بھرتی ہوں گے،پھر تربیت لیں گے پھر جا کر وہ کسی جگہ پر تعینات ہو جائیں گئے ۔راتوں رات ہی کسی اعلیٰ عہدے پر وہ نہیں بیٹھ سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس کوباضابطہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ اس میں کیا کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر کام بھی کیا جا رہا ہے اور جہاں عملہ کی زیادہ ضرورت ہے، وہاں عملہ بھیج دیںگے اور جہاں اس کی ضرورت نہیں ہے ،وہاں کم کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ اسامیوں کو پُر کرنے کی کوشش میں بھی سرکار لگی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ڈاکٹروں کی 100کے قریب اسامیاں خالی تھیں جو ہم نے پبلک سروس کمیشن کو بھیجی ہیں ۔