Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

ٹھٹھرتی سردی اور کسانوں کی تحریک | ملک کو اناج فراہم کرنی والے سڑکوں پر کیوں؟

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: December 23, 2020 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
14 Min Read
SHARE
 اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ ملک کو اناج فراہم کرنے والے کسانوں کا کیا حال ہوگا جو کڑاکے کی ٹھنڈ میں کھلے آسمان کے نیچے دن رات سڑکوں پر بیٹھ کر مرکزی حکومت کے ذریعہ کسانوں سے مشورہ کئے بغیر بنائے گئے3 زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ جس طرح ملک کے کسان آزادی سے قبل انگریزی دور حکومت میں زرعی مخالف پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے‘ آج پھر اپنی دیسی حکومت سے متاثر ہورہے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کی آزادی سے پہلے بھی زرعی پالیسیوں نے کسان تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ ویسا ہی عالم آج ملک میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حکومت نے ملک میں سال 2014 سے اب تک ملک میں کئی تحریک کو کچلنے کا کام کیا لیکن انہیں نہیں معلوم کہ سال 1857 کی فوجی بغاوت ناکام ہونے کے بعد بغاوت کا مورچہ کسانوں نے ہی سنبھالا تھا، کیوںکہ انگریزوں اور ریاستوں کی سب سے بڑی تحریک ان کے استحصال سے ہی شروع ہوئی تھی۔
 آج بھی مرکز ی حکومت اور من مانے قانون اور استحصال کے سبب ملک کے کسان تحریک شروع کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔ ملک کا کسان ایک مرتبہ پھر سڑک پر ہے۔ مرکز ی حکومت کی جانب سے لائے گئے 3 زرعی قوانین کے خلاف کسان سڑکوں پر اْتر گئے ہیں۔ کسانوں کو ڈر ہے کہ نئے قانون سے منڈیاں ختم ہوجائیںگی ،ساتھ ہی ایم ایس پی پر ہونے والی خریداری بھی رک جائے گی۔ دوسری جانب حکومت کے دعوے اس کے برعکس ہیں۔ یعنی ایم ایس پی پر خریداری بند نہیں ہوگی مگر ملک کے کسانوں کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ حکومت نے جس طرح سے سرکاری اداروں کو ملک کے کارپوریٹ کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے، کہیں اسی طرح کی سازش کر زرعی سیکٹر کو بھی نئے قانون کے توسط سے گروی نہ رکھ دے۔
 ملک میں ’دیس بھکت‘ کا ذکر ہمیشہ ہوتا رہا ہے اور جنگ آزادی میں جن لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اپنی جان کی قربانی دی، انہیں سچا محب وطن کہا جاتا ہے مگر ہماری نظر میں کسان بھی سچے محب وطن ہیں۔ ملک کے عوام کو نہیں بھولنا چاہئے کہ جنگ آزادی میں ان کسانوں کا اہم کردار رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں‘ ملک کو جب بھی اناج کی ضرورت پڑی ہے، کسانوں نے اپنی محنت کے بدولت ملک کے عوام کو اشیائے خوردونوش کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ مرکزی حکومت کو سوچنا چاہئے کہ حال ہی میں جب ملک میں کورونا کے سبب لاک ڈائون کیا گیا تو حکومت نے دوسرے ممالک سے اناج لاکر نہیں دی بلکہ انہی کسانوں کی محنت سے پیدا اناج ملک کے عوام کو فراہم کیا۔ آج ملک کی راجدھانی کی سڑکوں پر نئے زرعی قوانین کی مخالفت میں تحریک کررہے کسانوں کو مرکز ی حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم منڈیوں میں بہتری کے لئے تینوں زرعی قوانین لے کر آئے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ نئے قوانین میں کہیں بھی منڈیوں کی بہتری کا ذکر نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نئے زرعی قوانین کہیں کسانوں کی تباہی کا سبب نہ بن جائیں۔ ویسے ملک کے عوام نے موجودہ مرکزی حکومت میں اب تک دھوکے ہی کھائے ہیں۔ بہتری کے نام پر ملک کے عوام نے نوٹ بندی کی مار کو برداشت کئے، اس کے نتائج یہ رہے کہ ملک میں چھوٹے چھوٹے کاروبار تباہ ہوگئے۔ بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا۔ عالم یہ ہے کہ آج بھی ملک نوٹ بندی کے نقصانات سے ابھرنہیں سکا ہے۔ جو چھوٹے چھوٹے کاروبار محفوظ رہ گئے تو حکومت ہند نے جی ایس ٹی کو بھارت کی معاشی آزادی بتاکر جی ڈی پی بڑھانے کا دعوی کیا اور نصف شب میں جی ایس ٹی کا نفاذ کردیا گیا ۔ملک کی جی ڈی پی آگے نہ بڑھ سکی اور ملک کی جی ڈی پی کافی نیچے گرتی چلی گئی۔ کورونا دور میں بغیر تیاری ملک میں لاک ڈائون نافذ کردیا گیا۔ کورونا تو ختم نہیں ہوا مگر ملک کے ہزاروں لاکھوں مزدوروں کا مستقبل ملک کی سڑکوں پر تباہ ہوگیا۔ لاکھوں افراد کی نوکری چھن گئی۔ لوگ بے روزگار ہوگئے۔ بے روزگاری کے سبب ہزاروں کنبے سڑکوں پر آگئے۔
 اب مودی حکومت کے نشانے پر ملک کے کسان ہیں۔ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے زرعی قوانین کو کسانوں کے مفاد میں بتاکر ایک نئی آزادی کی حیثیت سے انہیں متعارف کرارہے ہیں مگر ان قوانین کو لے کر کئی سوال ہیں۔ ان قوانین میں حکومت کہہ رہی ہے کہ کسانوں کی فصلوں کو فروخت کرنے کے لئے متبادل میں توسیع کی جارہی ہے۔ کسان ان قوانین کے توسط سے اب اے پی ایم سی منڈیوں کے باہر بھی اپنے فصل اعلیٰ قیمت پر فروخت کرسکیںگے۔ پرائیوٹ خریداروں سے اچھی قیمت لے سکیںگے مگر حکومت نے نئے قانون کے ذریعہ اے پی ایم سی منڈیوں کو ایک حد میں مقید کردیا ہے جبکہ بڑے کارپوریٹ خریداروں کو کھلی چھوٹ دیدی ہے۔ بغیر کسی رجسٹریشن، بغیر کسی قانون کے دائرے میں آئے بڑے سرمایہ کار کسانوں کی فصل خرید اور فروخت کرسکتے ہیں۔ اے پی ایم سی منڈی کے باہر بازاروں پر پابندی اور نگرانی نہیں ہوگی۔ یعنی کسانوں کی محنت سے ہوئے فصلوں کا فائدہ بڑے سرمایہ کار اٹھائیںگے۔ مجموعی طور پر تینوں قوانین میں کہیں نہ کہیں کسانوں کو بڑے سرمایہ کاروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بناکر رکھ دیا گیا ہے اور بڑے سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ 
ویسے اگر ہم مثال کے طور پر بہار کی بات کریں تو بہار میں سرکاری منڈی نظام نتیش حکومت کے آ تے ہی 2006 میں ہی ختم ہوچکا ہے۔ تقریباً 14سال گزرجانے کے بعد بہار میں کتنی سرمایہ کاری ہوئی؟ بہار کے کسانوں کو آج کیوں کم قیمت پر فصل فروخت کرنی پڑرہی ہے؟ اگر بہار میں سبز انقلاب آگیا تو پھر بہار کے مزدوروں کو نقل مکانی پر کیوں مجبور ہونا پڑ رہا ہے؟ بہار زرعی آمدنی کے شعبہ میں ملک کی دوسری ریاستوں سے بہتر کیوں نہیں ہوسکا؟۔
 ویسے الگ الگ ریاست میں کسان حکومتوں کے خلاف متحد ہوتے رہے ہیں۔ ان تحریکوں سے اقتدار کے ستون بھی ہلتے اور گرتے رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے مندشور میں سال 2017 میں ہوئی کسان تحریک کو لوگ ابھی تک نہیں بھولے ہوںگے جہاں پولس کی فائرنگ میں 7 کسانوں کی موت ہوگئی تھی۔ 15 سال بعد مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومت کی واپسی میں کسانوں کا کردار اہم تھا۔ اسی طرح قرض معافی اور فصل کی ڈیڑھ گنا زیادہ حمایتی قیمت کے مطالبہ پر تمل ناڈو کے کسانوں نے سال 2017 اور 2018 میں راجدھانی دہلی میں نیم برہنہ ہوکر، ہاتھوں میں انسانی کھوپڑی اور ہڈیاں لے کر تحریک شروع کی تھی۔ آج ملک میں تازہ تحریک کی بات کریں تو پنجاب سے اٹھی تحریک کی چنگاری سے پورا ملک اس کی تپش محسوس کررہا ہے۔ ہریانہ، راجستھان، مہاراشٹر، اتراکھنڈ، اترپردیش، مدھیہ پردیش، اڑیسہ، مغربی بنگال، اندھراپردیش، بہار سمیت ملک کے دیگر حصوںمیں بھی کسان سڑکوں پر اْتر آئے ہیں۔ دہلی کو چاروں جانب سے تحریک کار کسانوں نے گھیر لیا ہے اور تقریباً ایک ماہ سے کڑاکے کی ٹھنڈ میں بیٹھے 42 کسان اپنی جان کی قربانی بھی دے چکے ہیں۔
 اگر ہم کسانوں کی تاریخ میں جائیں تو جتنی بھی کسان تحریک ہوئیں، ان میں زیادہ تر تحریکیں انگریزوں کے خلاف تھیں۔ ملک میں نیل پیدا کرنے والے کسانوں کی تحریک، پابنا بغاوت، تیبھاگا تحریک، چمپارن ستیہ گرہ اور باردولی میں تحریک ہوئی۔ ان کی قیادت مہاتما گاندھی اور ولبھ بھائی پٹیل جیسے لیڈروں نے کی۔ دکن کی بغاوت، اس تحریک کی شروعات دسمبر 1874 میں مہاراشٹرکے شیرور تالوکا کے کرڈاہ گائوں سے ہوئی۔ دراصل ایک بیاض خور کالو رام نے کسان بابا صاحب دیش مکھ کے خلاف عدالت سے گھر نیلامی کی ڈگری حاصل کرلی۔ اس پر کسانوں نے ساہو کاروں کے خلاف تحریک شروع کردی۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ تحریک ایک دو مقام تک محدود نہیں رہی بلکہ ملک کے مختلف حصے تک پھیلتی چلی گئی۔ یہ تحریک اْترپردیش سے شروع ہوئی۔ ہوم رول لیگ کے کارکنوں کی کوشش اور مدن موہن مالوی کی رہنمائی میں فروری 1918 میں اترپردیش میں کسان تنظیم تشکیل دی گئی۔ سال 1919 کے آخری ایام میں کسانوں کی بغاوت کھل کر سامنے آئی۔ اس تنظیم کو جواہر لال نہرو نے اپنی تعاون دیا۔ اتنا ہی نہیں، کیرالہ کے مالابار علاقے میں موپلا کسانوں کے ذریعہ 1920 میں بغاوت کی گئی۔ شروعات میں یہ بغاوت انگریزی حکومت کیخلاف تھی۔ مہاتماگاندھی، شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے لیڈران نے اس تحریک کو اپنا تعاون دیا۔ اس تحریک سے علی موسلیار لیڈر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ 
سال 1920 میں اس تحریک کو ہندو مسلم کی شکل دیدی گئی تھی جیسے آج صاحب اقتدار پارٹی کے نیتائوں کے ذریعہ ملک میں کسانوں کی تحریک کو خالستانی، پاکستانی کے ساتھ ساتھ ٹکڑے ٹکڑے گینگ بتاکر کسان تحریک کو انگریزی حکومت کی طرح کچلنے کی سازش چل رہی ہے۔ لیکن ملک کے تحریک کار کسانوں کے حوصلے کو دیکھ کر ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ وہ اپنی تحریک کو کسی بھی حالت میں کمزور پڑنے دیںگے۔ حکومت نے کسانوں کی تحریک تیز ہوتے دیکھ پارلیمانی سرمائی سیشن کو کورونا کی دہائی دے کر ٹال دیا لیکن کیا وجہ تھی کہ مرکزی حکومت نے کورونا دور میں خصوصی پارلیمانی سیشن بلاکر زرعی قوانین کو پاس کرایا تھا۔ آج ملک کے کسان تحریک کررہے ہیں، حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ خصوصی پارلیمانی سیشن بلاکر زرعی قوانین کو منسوخ کیا جائے لیکن مرکز ی حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے اور انگریزی دور حکومت کا رویہ اپنے ملک کے کسانوں کے ساتھ اختیار کر رکھی ہے۔
جن کسانوں نے ملک کو کبھی اشیائے خوردونوش کی کمی کا کبھی احساس نہیں ہونے دیا آج وہی کسان بے سہارا بن کر اپنے حق کی لڑائی لڑرہا ہے۔ اگر ہم آزادی سے قبل ملک میں شائع ہونے والے اخبارات کا ذکر کریں تو کسانوں کے استحصال، سرکاری افسران کی زیادتی، امتیازات اور کسانوں کی تحریکات کو ترجیحات کے ساتھ شائع کی جاتی تھی۔ لیکن آج کے نئے دور میں کچھ ہی میڈیا ہائوس کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ زیادہ تر میڈیا ہائوسز سرکاری ترجمان بن کر حکومت کی زبان بول رہے ہیں۔ آزادی سے پہلے کسانوں کی تحریک ایک دو مقامات تک محدود نہیں رہی بلکہ ملک کے کئی حصوں تک پھیل گئی تھی۔ جنوبی ہند کے دکن سے پھیلی یہ آگ مہاراشٹر کے پونا اور احمد نگر سمیت ملک کے کئی حصوں میں پھیلی تھی۔ اس کی واحد وجہ کسانوں پر ساہوکاروں کا استحصال تھا۔ آج حکومت کارپوریٹ سے کسانوں کا استحصال کرانا چاہتی ہے تاہم یہ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس معرکہ میں کون کامیاب ہوگا؟ کیا کسان اپنی بات منوا کر رہے گا یا حکومت احتجاجی کسانوں کو بے نیل ومرام پسپا ہونے پر مجبور کردے گی۔
موبائل۔9709180100
 ای میل۔[email protected]
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ضلع پونچھ میں اشیائے ضروریہ کا وافر ذخیرہ دستیاب | مناسب اَدویات کی دستیابی کے ساتھ ہسپتال مکمل طور پر فعال
تازہ ترین
مودی حکومت کو پُرامن راستے تلاش کرنے پر سیاسی سزا نہ دی جائے: محبوبہ مفتی
تازہ ترین
پہلگام حملے میں ملوث مشتبہ ملی ٹینٹوں کے پوسٹر چسپاں
تازہ ترین
ضلع بار ایسوسی ایشن بانڈی پورہ کے انتخاباب،ایڈوکیٹ صوفی فیروز کامیاب قرار
تازہ ترین

Related

کالممضامین

پونچھ اور پہلگام | درد کے سائے میں انسانیت کا چراغ صدائے سرحد

May 13, 2025
کالممضامین

جنگ بندی کمزوری نہیں ،طاقت کا ثبوت زاویہ نگاہ

May 13, 2025
کالممضامین

ہندوپاک کشیدگی اور بے پناہ تباہی | سرحد کے آرپارموت و تباہی کی المناک تاریخ رقم گردش دوراں

May 13, 2025

ان کی حفاظت کرنا ہر انسان کے لئے لازمی! ان کی حفاظت کرنا ہر انسان کے لئے لازمی!

May 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?