۔55برسوں سے بیمار سرکاری صنعتی یونٹوں کی بحال کے سبھی اقدامات بے سود ۔ 2012کے بعد اربوں روپے خرچ ، کوئی یونٹ منافع حاصل نہیں کرسکا، سبکدوش ملازمین کی پینشن رقوم بھی واجب الادا

 پرویز احمد

سرینگر //جموں وکشمیر میں صنعتوں کو بڑھاوا دینے کیلئے پچھلے 55برسوں سے کئی بات مخلصانہ کوششیں کی گئیں لیکن کروڑوں نہیں اربوں روپے صرف کرنے کے باوجود بھی بیمار صنعتی یونٹوں کو بحال نہیں کیا جاسکا۔حد تو یہ ہے کہ جنوری 2011میں سرکا ر کی اعلیٰ اختیاری کمیٹی نے جموں کشمیر انڈسٹریز کے بیمار صنعتی یونٹوں کی نشاندہی کرکے ان میں کام کررہے قریب 900ملازمین کو رضاکارانہ طور پر ریٹائر کرنے کیلئے(VRS) سکیم لاگو کرنے کی صلح دی تھی اوربورڈ آف ڈائریکٹرس کی میٹنگ میں باضابطہ طور پر 104ملازمین کو پہلے مرحلے میںرضاکارانہ طور پر ریٹامنٹ لینے کے مالی مراعات دیئے گئے۔

 

 

لیکن اسکے بعد جموں کشمیر انڈسٹریز کو نہ جانے کون سے پر لگ گئے کہ اس نے اپنے بیمار یونٹوں کو فعال کرنے کیلئے اربوں روپے خرچ کئے جس کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا۔2014کے سیلاب کے بعد ورلڈ بینک نے23 کروڑ روپے دیئے لیکن اسکے باوجود کوئی عملی کوشش کے بجائے صرف زبانی جمع خرچ کیا گیا۔جموں کشمیر انڈسٹریز کے بیمار یونٹوں کو مکمل طور پر بند کرنے اور ملازمین کو رضاکارانہ طور پر ریٹائرمنٹ لینے پر راضی کرنے کی سکیم کے عوض صنعتی یونٹوں کے اثاثے فروخت کرنیکا فیصلہ کیا گیا تھا۔اس فیصلے پر 2010میں عملدر آمد بھی شروع کیا گیا تھا لیکن 2011کے بعد یکا یک کایا پلٹ گئی اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کی سکیمیں تیار کی گئیں اور یوں بیمار صنعتی یونٹ مزید بیمار ہوگئے،اور دیوالیہ کے قریب پہنچ گئے۔

 

 

 

حد تو یہ ہے کہ جموں کشمیر انڈسٹریز کے سینکڑوں ملازمین جو ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل ریٹائر ہوگئے ہیں انہیں لیو سیلری نہیں دی جاسکی ہے، جو انکا حق ہے،حالانکہ ان میں سے کچھ ملازمین فوت بھی ہوگئے ہیں اور بہت سارے ملازمین اپنے بچوں کی شادی کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔فی الوقت جے کے آئی کے تقریباً سبھی یونٹ خسارے پر چل رہے ہیں۔ جو یونٹ اپنے ملازمین کی تنخواہیں نہ دے سکیں اور ملازمین کے اپنے جمع کرائے گئے پیسے نہ دینے کی پوزیشن میں ہوں، ان بیمار یونٹوں پر 10سال کے دوران صرف کئے گئے پیسے کا حساب کون دیگا۔جموں کشمیر انڈسٹریز کے سبکدوش ملازمین کا مطالبہ ہے کہ حکومت کی جانب سے 2015میں بیمار یونٹوں کی بحالی کیلئے 200کروڑ روپے خرچ کرنے کی بات ہو یا پھر راجباغ سلک فیکٹری کی دوبارہ بحالی کیلئے ورلڈ بینک کی جانب سے 20کروڑ روپے دینے کا معاملہ ہو، ہر ایک پیسے کا حساب لیا جانا چاہیے تاکہ اس بات کی نشاندہی ہوسکے کہ اگر 2010میں جے کے انڈسٹریز کے بیمار یونٹوں کو بند کرکے ملازمین کیساتھ (VRS) سکیم کے تحت معاملات سلجھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو ایک دم سے اچانک ایسے کونسے عوامل پیدا ہوئے کہ کروڑوں روپے کے پرپوزل اقتدار کے ایوانوں کو بھیجے گئے، یا اچانک بیمار یونٹ کیسے صحتیاب ہوئے اور بند پڑے یونٹوں کے تالے خود بہ خود کھل گئے کہ جے کے آئی کو اربوں روپے واگذار کئے گئے لیکن بعد میں اسکا حساب نہیں لیا گیا۔

 

 

 

انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس پورے معاملے کی سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کی جانی چاہیے تاکہ 2011کے بعد خرچ ہونے والی رقومات کا حساب لیا جائے۔یہ بھی یاد رہے کہ بیمار صنعتی یونٹوں سے متعلق31مارچ 2005کو بھی ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ مجموعی طور پر 19(PSU) کا انتظامی کنٹرول حکومت کے پاس ہے جن میں سے صرف 7منافع کمارہے ہیں، جبکہ 12خسارے پر چل رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ ان اداروں کو 736.43کروڑ کا خسارہ ہوچکا ہے اور ملازمین کی تنخواہ اور دیگر مراعات سمیت حکومت پر مزید 317.81کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ 2011کے بعد جے کے آئی کو دوبارہ فعال کرنے کیلئے جو کروڑوں روپے دیئے گئے ان سے صفر نتائج بر آمد ہونے کی بات 2015میں سابق ریاستی اسمبلی میں اعداوشمار پیش کرکے بھی بتائی گئی۔ایک تحریری جواب میںایوان کو بتایا گیا کہ ملی ٹینسی کے پھوٹ پڑنے سے پہلے ریاست میں 3518 صنعتی یونٹ تھے۔ کشمیر ڈویژن میں 9,663 اور جموں ڈویژن میں 11850 صنعتی یونٹ ہیں۔ بیمار یونٹوں کی تعداد کشمیر میں 368 اور جموں میں 89 یونٹ ہیں۔اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ کشمیر میں 59 یونٹوں کو بحالی پیکیج کے تحت نرم قرض کی منظوری دی گئی ہے، جب کہ جموںمیں، 8 کو نرم قرض کے لیے منظور کیا گیا تھا۔