! ہومیو پیتھک طریقۂ علاج دریافت کب اور کیسے ہوئی؟

اختر جمال عثمانی

ایک جرمن فزیشین ڈاکٹر سیمو ئیل ہانیمن نے ہومیوپیتھی کی بنیاد اٹھارویں صدی میں رکھی تھی ۔ ہانمین۱۰؍ اپریل ۱۷۵۵ء میں جرمنی کے قصبے سیکسونی میں پیدا ہوئے ،انکا پورا نام سیموئیل کرسچن فراڈرک ہانیمن تھا۔ ایلوپیتھک ڈاکٹر بن جانے کے گیارہ سال بعد انہوں نے ہومیو پیتھک طریقہ علاج دریافت کیا۔ سنکونا سے شروع کر کے مختلف ادویات کا اپنے اور اپنے عزیز و اقارب پر مسلسل تجربات کرنے کے بعد اپنے مضامین کے ذریعے انھوں نے ہومیوپیتھی فلسفہ سے دنیا کو آگاہ کیا ۔ ۱۸۱۰ء میں انکی شہرئہ آفاق کتاب آرگینن آف میڈیسن شایع ہوئی۔ اگلے دس برس میں انہوں نے میٹریا میڈیکا تیار کی ۔اس وقت کے تمام روایتی معالجین نے اسکی مخالفت شروع کر دی۔ مخالفین کے دبائو میں حکومت نے ان کے طریقہ علاج کو غیر قانونی قرار دے دیا اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا۔ اب ہینمن کو اس ملک سے فرار ہو کر کوتھن میں پناہ لینی پڑی یہاں ڈیوک آف کوتھن نے انکی سر پرستی کی اور یہیں سے انہوں نے اپنی تحقیق کے نتائیج پر مبنی کتاب دی کرانک ڈیزیزز شایع کی ۱۸۳۵ء میں وہ پیرس منتقل ہو گئے اور وہیں پریکٹس کرنے لگے۔ ۲ ؍ جولائی ۱۸۴۳ء کو پیرس میں ہی ان کا انتقال ہوا۔

ہومیو پیتھی کا بنیادی اصول ہے زہریلی چیزوں ، زہروں ، دھاتوں وغیرہ سے ویسی ہی ملتی جلتی یا اسی طرح کی بیماریوں کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا جائے ،جس طرح کی بیماریاں یہ زہریلی اشیاء خود پیدا کر سکتی ہیں ،اسی لئے اس طریقہ علاج کو ہومیوپیتھی یا علاج بالمثل کہا جاتا ہے۔ یہ طریقہ علاج جلد ہی پورے یوروپ اور شمالی امریکہ میں پھیل گیا۔ ہومیو پیتھی میں کچھ اصطلاحات تقریباََ دو صدیوں سے رائج ہیں، جیسے دوا کی ’اونچی طاقت‘ (high potency) ’وائٹل پاور (vital ،power) روبرکس( rubrics)، مائنڈ ‘ (mind) وغیرہ ، لیکن سائنسی بنیاد پر ان کو سمجھ پانا مشکل ہے۔ ہانیمین نے ہومیو پیتھی کے اصول اس دور میں مرتب کئے تھے، جب مادوں کی کیمیائی ساخت کے بارے میں نہایت محدود علم تھا ۔ پانی آکسیجن اور ہائڈروجن سے اور الکوحل کاربن اور ہائڈروجن سے مل کر بنے ہیں ،یہ کون جانتا تھاجب کہ ایٹم کی دریافت تک نہیں ہوئی تھی ۔ میڈکل سائنس، فزکس، کیمسٹر ی وغیرہ کی ایجادات سے دنیا آشنا نہیں تھی۔ جراثیم جو کہ متعدد بیماریوں کے لئے ذمہ دار ہیں، ان سے بھی معالج نا واقف تھے۔ دوسرا معاملہ علاج کے بنیادی اصول کے متعلق ہے۔ اکثر یہ بات سامنے آتی ہے کہ B.H.M.S. وغیرہ ہومیو پیتھک کی ڈگری لینے کے باوجود ڈاکٹر ایلو پیتھک طریقہ علاج اپناتے ہیں یا پھر وہ خود ہومیو پیتھک دوائوں کے بارے میں کہ جن میں اس دوا کا ایک بھی ذرہ موجود نہیں ہے، شک و شبہ میں مبتلاء رہتے ہیں کہ چونکہ اونچی طاقتوں 30C,200C,CM وغیرہ میں اصل دوا کی موجودگی کا امکان نہیں ہے۔ اس شائد ہی کارگر ہوں۔ اس لئے وہ بازار میں دستیاب امراض کے مطابق کمبنیشن جن میں زیادہ تر دوائیں مدر ٹنکچر یا 1X,2X,3X کی شکل میں ہوتی ہیں، پر اعتماد کرتے ہیں کہ اس میں دوا مالیکو لر شکل میں موجود ہے۔ یہ کمبنیشن چونکہ مرض کے مطابق بنائے جاتے ہیں اور ان میں ایک مرض سے متعلق آٹھ دس تک یعنی تقریباً ساری دوائیں شامل رہتی ہیں،اس لئے دوا کے انتخاب کے مسئلے سے بھی دو چار نہیں ہونا پڑتا ہے۔

ہندوستان میں ہومیوپیتھی کی آمد انیسویں صدی میں ہوئی۔ سب سے پہلے یہ بنگال میں رائیج ہوئی۔ مہندر لال سرکار پہلے ہندوستانی ڈاکٹر تھے ،جنھوں نے ہومیو پیتھک دوائوں سے مریضوں کا علاج کرنا شروع کیا ۔ان کی دیکھا دیکھی اور کئی ڈاکٹروں نے ہومیو پیتھک پریکٹس شروع کر دی۔ ۱۸۸۱ء میں کلکتہ ہومیو پیتھک میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیا۔ اس طرح سے بنگال میںہو میو پیتھی کو مقبولیت حاصل ہونا شروع ہو گئی۔ بنگالی زبان میں ہومیو پیتھی کے متعلق کتابوں کی دستیابی عام ہونے لگی ۔کچھ ہومیوپیتھک ڈاکٹروں کی اپنی تصانیف اور زیادہ تر انگریزی زبان سے ترجمے،اسی نہج پر مدراس میں بھی ہومیوپیتھی نے مقبولیت حاصل کی اور تامل زبان میں ہومیو کتب کی دستیابی عام ہو گئی۔لیکن ابھی تک شمالی ہندوستان میں ہومیوپیتھی کا زیادہ رواج نہ ہو سکا تھا ۔حالا نکہ اس علاقہ میں غربت عام ہونے کی وجہ سے اس طرح کے سستے علاج کی اشد ضرورت تھی۔ اگرچہ تعلیم یافتہ طبقہ میں اکثریت اردو داں حضرات کی تھی اور طب یونانی سے متعلق زیادہ تر کتابیں فارسی اور اردو میں ہوا کرتی تھیں لیکن یہ طبقہ ابھی تک ہومیوپیتھی سے نامانوس تھا۔ اردو زبان ان قیمتی اور زریں معلومات سے محروم تھی اور اسکی اشد ضرورت تھی کی یہ معلومات مادری زبان کا جامہ پہن لیں ۔ ان حالات میں مخیر حضرات نے ہومیوپیتھی سیکھنے کے بعد اس علم کو اردو میں منتقل کرنا شروع کر دیا اور بیسویں صدی کا نصف اول مکمل ہوتے ہوتے ہومیو پیتھی سے متعلق اردو کتب کا بہت بڑا ذخیرہ وجود میں آگیا۔ یہی وہ دور تھا کہ جب بے شمار قصبات اور مضافات میںبہت سے لوگوں نے ہومیو پیتھی سیکھی، ان میں تعلیم یافتہ زمیندار، مدرسین و دیگر سرکاری ملازمین وغیرہ شامل تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کو مالی منفعت سے غرض نہ تھی بلکہ بنیادی طور سے خدمتِ خلق کا جذبہ ہی کارفرما تھا۔چنانچہ بہت سے اہل خیر حضرات نے غریبوں کو مفت علاج فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور اس طرح وہ لوگ جو کسی طرح کے علاج کے متحمل نہیں تھے ، ان کو سہارا ملا۔ اس دور میں ہومیوپیتھی کو سرکار کی سرپرستی حاصل نہ تھی ، نہ ہی تعلیم کا کوئی با قاعدہ نظم تھا ، اور نہ ہی ہومیوپیتھک دوائوں کے ذریعہ علاج کرنے پر کوئی پابندی ہی تھی، ان حالات میں برصغیر کے طول و عرض میں اسکی ترویج میںاردو نے مرکزی کردار ادا کیا۔ ان ہومیو پیتھک معالجین نے جو اردو پر بھی دسترس رکھتے تھے اور اپنے خیالات کے اظہار پر قادر تھے تصنیف و تالیف کے ذریعہ اس علم کو آگے بڑھایا ،اس میں بیک وقت ہومیوپیتھی اور اردو دونوں کی خدمت کا جذبہ پنہاں تھا۔ اس قافلے میں بے شمار لوگ شامل تھے۔لیکن لکھنو کے ڈاکٹر کاشی رام کو بلا شبہ اس قافلے کا سالار کہا جاسکتا ہے جن کی کتاب ’سائیکلو پیڈیا آف ہومیو پیتھک ڈرگز یعنی مخزن المفردات ہومیوپیتھی ‘تین ضخیم جلدوں میں آج تقریباً ایک صدی گذرنے کے بعد بھی ہومیوپیتھی کی اردو کتابوں میں سرِ فہرست ہے ۔ ڈاکٹر کاشی رام کی دیگر تصانیف میں امراضِ نسواں، کلیدِ میٹریا میڈیکا، اور ڈاکٹرسشلر کے بارہ نمکیات سے علاج کے اصول پر مشتمل بائیو کیمک سائینس کا اہم مقام ہے۔ ڈاکٹر دولت سنگھ دہلی کی کتابیں میٹریا میڈیکا مع رپریٹری، پریکٹس آف میڈیسن اور رفیقِ ہومیو پیتھی اور ڈاکٹر بشمبھر داس کی کتاب دوا کا انتخاب بھی قابلِ ذکر ہیں ۔ ان کے علاوہ برِ صغیر ہند و پاک میں ہومیوپیتھی کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کرنے والے کچھ مصنفین اور انکی تصانیف کا ذکر ضرور ی ہے۔مثلاً ڈاکٹر عبدا لقیوم ملیح آبادی کی افاداتِ ہومیوپیتھی اور مجرباتِ ھومیوپیتھی،ڈاکٹر رفیق احمد کی ابجد ہومیوپیتھی،ڈاکٹر ہری چند ملتانی کی تاج ہومیوپیتھی ڈاکٹر فتح شیر کی جوہر ہومیوپیتھی اور روح ہومیوپیتھی، ڈاکٹر شوکت شوکانی کی میرا کلینک، ڈاکٹر گلزار احمد کی سحر ہومیوپیتھی، ڈاکٹر عابد حسین کی ہومیوپیتھی کی پہلی کتاب، ہومیوپیتھی کے راز،میٹریا میڈیکا، ڈاکٹر قاضی احمد سعید کی ہوا لشافی،ڈاکٹر محبوب عالم قریشی کی تفہیم الادویہ اور ڈاکٹر عبدالحمید کی چشمہ شفاء اور پچھلی صدی کے اواخر میں آئی مرزا طاہر ا حمد صاحب کی ضخیم کتاب ہومیوپییتھی یعنی علاج با لمثل اور مشہور مصنف اور روحانی شخصیت ممتاز مفتی کی کتاب مداح ہومیوپیتھی وغیرہ وغیرہ۔ ان تصانیف کے علاوہ انگریزی اور دیگر زبانوں سے اردو میں ترجمہ کی گئی کتب بھی اہمیت کی حامل ہیں ۔جیسے آرگینن آف میڈیسن مترجم جے کے خان، ڈاکٹر ولیم بورک کی بورک میٹریا میڈیکا مترجم ڈاختر احمد حسن عسکری و ڈاکٹر عبدل قیوم طاہر، جولین میٹریا میڈیکا( جرمن) مترجم ڈاکٹر محمد عاطف کمبوہ، لپے میٹریا میڈیکا کا ترجمہ روشن راہیں کے نام سے مترجم ڈاکٹر جاوید مغل،جارج وتھا لکس کی ایسنس آف میٹریا میڈیکا مترجم ڈاکٹر ساجد شاہین، نیش لیڈرس مترجم ڈاکٹر محمد عرفان ،کینٹ میٹریا میڈیکا مترجم ڈاکٹر عابد حسین وغیرہ وغیرہ۔ ہومیوپیتھی سے متعلق ماہانہ اردو رسالوں کا سلسلہ بھی کافی عرصہ تک جاری رہا، جس میں لاہور سے جاری ہومیوپیتھک میگزین اور ہومیوپیتھک لیڈر اور لکھنو سے جاری ہومیوپیتھک دنیا نے کافی عرصے تک اشاعت جاری رکھی۔ دہلی سے نکلنے والا ماہانامہ روزگار، جس میں نصف حصہ ہومیوپیتھی کے لئے وقف رہتا تھا۔ بذریعہ اردو ہومیو پیتھی کی اشاعت میں ڈاکٹر رام لعل، ڈاکٹر امر پرکاش اروڑا، ڈاکٹر پیارے لعل سریواستو اور ایس پی مہتہ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اگرچہ راقم الحروف کے پاس متذکرہ کتب میں سےزیادہ تر موجود ہیں جو کہ والد مرحوم کے ذخیرہء کتب میں سے بطور وراثت حاصل ہوئی ہیں، موجودہ منظر نامے میں اردو کہیں دور دور تک نظر نہیں آ تی، یہ ماضی کی بات ہے ۔ اس مختصر تحریر کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ برصغیر میں ہومیوپیتھی طریقہ علاج کی ترویج و اشاعت میں اردو زبان نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔
(رابطہ۔ Mb.9450191754)
[email protected]