ہوتے ہوئے بھی صحت مند ہم بیمار نہیں ہوئے

گرحادثۂ دہر سے ہم دوچار نہیں ہوتے
ہوتے ہوئے بھی صحت مند ہم بیمار نہیں ہوتے

اِس گردشِ دوران کے مارے ہیں ورنہ
اپنے ہی گھر میں آج ہم پسِ دیوار نہیں ہوتے

قُدرت نے ایسی تابع کی اوقات بدل دی
بھیساکھیوں پہ یُوں ہی ہم سوار نہیں ہوتے

باور ہیں یارانِ سخن حالات سے لیکن
اِن ہمنوائوں کے آجکل دیدار نہیں ہوتے

دانشؔ وشفیع میر کو دیتا ہُوں دُعائیں
اِن کے بِنا ہم شاملِ اخبار نہیں ہوتے

مقصد حیات کا رہا خدِمت خلق کی دوست
خلقِ خُدا میں لوگ سب ہوشیار نہیں ہوتے
بعد از مرگ عدُو تلک ہمیں یاد کرینگے
لگائے جو ہم نے جابجا گر چِنار نہیں ہوتے

اب مرحلۂ شام تک پہنچی حیات ہے
باندھے ہوئے ہم رختِ سفر یوں تیار نہیں ہوتے

اَے خالقِ دوجہاں یہ عالم ہے بے ثبات
قصرِ حیات ورنہ یُوں مِسمار نہیں ہوتے

مکتب سُخن کے میرے رہبر نشاط تھے
مقبول ہند و پاک میں یوں اشعار نہیں ہوتے

شہرت عُشاقؔ دین ہے اُردو زبان کی
اُدباء کی صف میں ورنہ یوں شمار نہیں ہوتے

���

 

عشاق کشتواڑی

کشتواڑ