نظمیں

لمحہ فکریہ

بڑا پُر ہول منظر ہے مرے گھر بام کے آگے
لکھی ظلمت ہی ظلمت ہے میرے پھر نام کے آگے
میں کیسے سانس لیتا پھر اَماں کچھ کیف وراحت کی
عجیب ہے آتشی منظر میرے ہر گام کے آگے
نہیں معلوم ہے مطلق مرا انجام کیا ہوگا
نہیں انجام لکھا ہے کہیں انجام کے آگے
نبض فکر و نظر کی کچھ ابھی جاوید ہے لیکن
ذہن نا کام ہے یکسر سعیٔ نا کام کے آگے
حیات و موت کے مابین یہ مانا فاصلہ کچھ ہے
کیا کرتا ہوں پھر سجدے عبث احرام کے آگے
میں اپنی زیست کا توشہ لیئے بے نام پھرتا ہوں
رقم اس پہ فنائی ہے مرے پھر نام کے آگے
مُسافر آتے جاتے ہیں جہانِ بے دوامی میں
لکھا حرفِ اصل آخر فقطہ انجام کے آگے
نہیں معلوم ہے تجھ کو ابھی تک نابلد عشاق ؔ
کہ بعد مرگ ہوتی ہے صبح پھر شام سے آگے

عشاق ؔکشتواڑی
صدر انجمن ترقی اردو (ہند) شاخ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469

ہر کوئی فردِ بشر نہیں ہوتا

یہ نظامِ جہاں کچھ اور ہے
اور یہاں عالمِ بشر کچھ اور
حاصلِ کَرَنہار کچھ اور ہیں
کچھ دَرندے ہیں کچھ ساہوکار
کچھ ہیں عصمت فروش تو کچھ ہیں
نیک،عصمت مآب دھرتی پہ
کچھ ہیں رنگےِ سِیار ، کچھ فتنہ ساز
بدہے،کوئی عِیاش، کوئی اوباش
سنگ دل ہے، کٹھور اور بے حِس
بس یہی درد عالمِ سَفّاک
ہے مرے آگے کچھ قَسِیُ القلب
مس پڑا جیسے شہرِ نا پُرساں
اور اِسی شہر بد گماں میں ہر
کوئی فردِ بشر نہیں ہوتا

یاورؔ حبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندوارہ