پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ اور تعلیم جو بات کو حضورِ قلب سے سُنتا ہےاُس کے لئےقرآن کی تعلیم میں نصیحت ہے

شیخ ولی محمد
آخری پیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم جس قوم کی طرف مبعوث کیے گئے وہ ’’اُمُی‘‘ یعنی ان پڑھ قوم تھی ۔ سر زمین مکہ میں اس وقت یہ جاہل قوم ہر قسم کی برائیوں میں ملوث تھی ۔ اﷲ کے بھیجے ہوئے انبیاء کی تعلیم کو بھلاکر انسان اپنے خود ساختہ نظریات پر عمل پیرا تھے ۔ توحید کے بجائے ہر جگہ شرک کا غلبہ تھا ۔ انسانی حقوق کی پامالی عروج پر تھی ۔ ڈاکہ زنی ، قتل وغارت گری ، لوٹ مار ، انسان کا مشغلہ بن چکا تھا ۔ فحاشی اور عریانیت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ اﷲ کے گھر کا طواف برہنگی میں کیا جاتا تھا ۔ بدکاری اور بے حیائی عام تھی ۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیری میں رسول پاک ؐ پر اﷲ کی آخری کتاب قرآن پاک کا آغاز سورۃ العلق کے ابتدائی ۵ آیات سے ہوا :
 ترجمہ :پڑھو ( اے نبی ؐ ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ۔ جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی ۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا ۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا‘‘۔
 کُفر و شرک کے اس ماحول میں وحی کا آغاز اِقراء یعنی علم کی اہمیت سے ہوتا ہے ۔ اس نقطے کی وضاحت کرتے ہوئے معروف علم دین مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی فرماتے ہیں کہ’’ ا س وحی میں شرک کی تردید اور خدا پر ایمان لانے کا صراحت کے ساتھ ذکر نہیں ، جو قرآن کی دعوت کا عطر اور خلاصہ ہے ۔ اس وحی میں ’’آخرت‘‘ کا تذکرہ نہیں جو ایمان اور عمل کا اصل محرک ہے ۔ اس وحی میں آپ ؐ کی نبوت و رسالت کا اعلان نہیں جس پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے ۔ اس ظلم و جور اور نااتفاقی کی مذمت نہیں جو عرب سماج کے مزاج میں داخل ہوگیا تھا اور اس وحی میں ان اخلاقی برائیوں اور پستیوں پر بھی کوئی تنقید نہیں جن کی اصلاح کو آپ نے اپنی زندگی کا مشن بنایا ۔ یہ پہلی وحی انسانیت کو ’’ تعلیم‘‘ کی طرف متوجہ کرتی ہے اس میں پہلا لفظ ہی ’’ اقراء ‘‘ کا ہے جس کے معنی ہیں ’’ پڑھ‘‘ پھر ان پانچ آیتوں میں دو جگہ تعلیم وتعلم کا ذکرہے ‘‘۔  ( دینی و عصری درسگا ہیں تعلیمی مسائل ص : ۱۴)
علم کی اہمیت سے متعلق قرآن مجید میں کئی دوسرے مقامات پر بھی تذکرہ کیا گیا ہے ایک سورۃ کا نام ہی ’’ القلم‘‘ رکھ دیا گیا ہے جس کے آغاز میں اﷲ تعالیٰ نے قلم کی قسم کھائی ہے ۔ سورہ طہٰ میں مطلق انداز میں علم میں اضافہ کے لیے دُعاء کی تلقین کی گئی ۔ وقل ربی زدنی علما  ( اور کہو !  اے میرے رب ! میرے علم میں اضافہ فرما ) اسی طرح احادیث نبوی ؐ علم کی اہمیت و فضیلت سے بھرے پڑے ہیں ۔آپ ؐ نے علم کو ہر ایک مسلمان کے لیے فریضہ قرار دیا ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے کہ ’’ علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ دوسری جگہ فرمایا گیا کہ حکمت و دانائی مومن کی گمشدہ دولت ہے وہ جہاں بھی مل جائے وہ اس کازیادہ حق دار ہے ۔ تعلیم و تدریس میں مصروف رہنے والوں کا اس سے بڑھ کر اعزاز اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک دفعہ آپ ؐ نے مسجد نبوی میں دو حلقوں کا مشاہدہ کیا ۔ ایک ذکر و دعاء میں مصروف تھا اور دوسرا تعلیم و تعلم میںآپ ؐ نے دوسرے حلقہ میں یہ کہہ کر شرکت پسند فرمائی کہ ’’ میں تو صرف معلم بناکر بھیجا گیا ہوں‘‘۔
عہد نبوی کے تعلیمی نظام کا مطالعہ کرتے ہوئے سب سے اہم حقیقت جو سامنے آتی ہے وہ ہے تعلیم پر سب کا حق تسلیم کرنا اور اس حق کی ادائی کے لیے باقاعدہ اہتمام کرنا ۔آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل حضور پاک ؐ نے نہ صرف تعلیم کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلایا اور اس کی طرف لوگوں کو راغب کیا بلکہ مختلف طریقوں سے اس کی اشاعت کا اہتمام فرمایا اور باقاعدہ وسیع پیمانے پر اس کا نظام قائم کیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایسا تعلیمی انقلاب برپاء ہوا کہ جو قوم تعلیم سے نابلد تھی وہ علم و فن کی امام بن گئی ۔ غار حرا میں جب جبرائیل امین نے کہا ’’ اِقرأء‘‘ پڑھو تو آپ ؐ نے فرمایا تھا میں پڑھنا لکھنا نہیں جانتا اور جب آپ پر علم و حکمت کے خزانوں کی بارش شروع ہوگئی تو آپ ؐ نے یہ خزانے دوسروں کو منتقل کرنے کا کام شروع کردیا ۔ بعثت کے بعدآپ نے سب سے پہلے اسلامی تعلیمات اپنے قریبی ساتھیوں تک پہنچائے ۔ جو آہستہ آہستہ دوسروں تک بھی پہنچنے شروع ہوگئی ۔ قرآن کی جو آیتیں نازل ہوئی تھیں آپ انہیں کسی پڑھنا لکھنا جاننے والے شخص کو بلاکر لکھ بھی دیتے تھے اور سب کو زبانی بھی یاد کرادیتے تھے ۔ آپ ؐ نے اسلامی تعلیم و تربیت کا سب سے پہلا مرکز مکہ معظمہ نواح میں کوہ صفاء پر واقع حضرت ابن ابی ارقم کے مکان کو بنایا ۔ یہ مکان تعلیم بالغان کی حیثیت اختیار کرگیا تھا ۔ یہاں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے اپنے گھروں پر مفت کوچنگ سینٹر بھی چلاتے تھے ۔ پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کے تعلیم و تربیت یافتہ ساتھی میلوں اور بازاروں میں کاروبار کرنے والوں کو اور صحرا اور ریگستانوں نیز چراگاہوں میں چرواہوں کو اوپن اسکول Open School اور اوپن یونیورسٹی Open Universityکی شکل میں تعلیم دینے کا انتظام فرماتے تھے ۔ ہجرت کے بعدآپ ؐ نے جہاں مسجد کی تعمیر کی تو وہیں مسجد کے ایک حصے صفہ نامی چبوترے کو تعلیم و تربیت کے لیے وقف کردیا ۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلی رہائشی یونیورسٹی Residential Universityتھی جہاں پڑھنے کے علاوہ رہنے کا انتظام بھی تھا ۔ غزوہ بدر میں جب قریش کو شکست ہوئی ۔ بہت سے کافر مارے گئے اور بہت سے گرفتار کرکے قید کردئیے گئے جنہیں بعد میں فدیہ لے کر چھوڑا گیا ۔ ان میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان کا فدیہ یہ قرار دیا گیا کہ وہ دس دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں ۔ اس شرط کے پوراہونے پر انہیں آزاد کردیا گیا اور اس طرح مسلمانوں میںعلم کی روشنی پھیلائی گئی ۔ عہد نبوی کی تعلیمی سرگرمیوں کا ایک اہم پہلو عورتوں کی تعلیم پر توجہ اور اس کا اہتمام تھا۔ آپ ؐ نے خوتین کی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے کیا ۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ  قرآن و حدیث کی عالمہ تھیں ۔ شعر و ادب اور علم انساب پر ان کی گہری نظر تھی ۔بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھی خاص توجہ دی گئی ۔ اس زمانے میں مساجد میںتعلیم کا جو نظام جاری تھا اس میں بچوں کی تعلیم کا خاص اہتمام تھا ۔ ریاست مدینہ سے باہر دیگر علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی تعلیم کے لیے آپ ؐ ان وفود کو تعلیم سے آراستہ کرتے تھے جو مدینہ میں آئے تھے ۔ بعض اوقات کسی صحابہ کو کسی علاقہ یا قبیلے کی خاطر تعلیم و تربیت کے لیے نامزد کرتے تھے ۔
جہاں تک عہد نبوی ؐ کے نظام تعلیم کے تحت پڑھائے جانے والے مضامین کا تعلق ہے بلاشبہ ان میں قرآن و حدیث کو اولیت حاصل تھی۔ قرآنی تعلیم کی اشاعت کے سلسلے میں فنِ کتابت کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا ۔ وقت کی ضرورت کے تحت فن کتابت کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اسیران بدر کے واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں جو رہا ئی کے لیے فدیہ کی رقم ادا کرنے سے قاصر تھے ان کا فدیہ آپؐ نے یہ قرار دیا کہ وہ انصار کے دس دس بچوں کو لکھنا سکھادیں ۔ چنانچہ ان قیدیوں میں کتابت سیکھنے والوں میں حضرت زید بن ثابت ؓ بھی تھے جو کاتبین وحی میں سب سے زیادہ مشہور ہوئے ۔ تعلیم کے میدان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ مبارکہ سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہمیں مختلف زبانیں سیکھنی چاہیے چنانچہ آپ ؐ نے صحابہ کو سریانی یا عبرانی زبان سیکھنے کی ترغیب دی ۔ حضرت زید ؓ بن ثابت آپ ؐ کی ہدایات کے تحت عبرانی کے علاوہ قبطی‘ فارسی ، رومی اور حبشی زبانوں سے بھی بخوبی واقف تھے ۔
فن کتابت اور دیگر زبان کے علاوہ بعض دیگر مفید علوم کے اکتساب کی ترغیب بھی عہد نبوی ؐ میں ملی ہے ۔ ان میں علم انساب ، علم میراث ، علم نجوم اور تیراندازی وغیرہ شامل ہیں ۔ آپ ؐ کے دور پُر سعادت میں کسی فن میں اختصاص یا مہارت Specializationحاصل کرنے کی داغ بیل بھی پڑچکی تھی ۔ چنانچہ صحابہ کرام میں مختلف علوم جیسے علم قرآن ،علم قرأت ، علم انساب ، کتابت وغیرہ کے ماہرین دستیاب تھے ۔ ایک مرتبہ ایک صحابی بیمار ہوئے ۔ آپ ؐ نے ان کی عیادت کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ تمہارے محلے یا قبیلے میں کوئی طبیب ہے ؟ جواب میں دو نام بتائیے گئے ۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان میں سے جو ماہر تر ہو اسے بلاؤ ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ علم میں تخصص پیدا کریں اور ماہروں سے علاج کرائیں ۔ آپ ؐ کے نظام تعلیم سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی فن یا علم کے ماہر کی آراء کو تسلیم کیا جائے۔ اس سلسلے میں کئی مرتبہ خود آپ ؐ نے صحابہ کرام کی آراء کو پسند فرماتے ہوئے ان پر عمل کیا ۔ غزوہ بدر میں جب حضرت حباب ؓ بن منذر نے لشکر کے پڑاؤ کے بارے میں اپنی تجویز پیش کی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس پر عمل کیا ۔ اسی طرح غزوہ احزاب میں حضرت سلمانؓ فارسی نے نبی کریم ؐ کو مدینہ کے ارد گرد خندق کھودنے کی تجویز دی تو آپ ؐنے ان کا یہ مشورہ قبول کرکے اس کو عملایا گیا ۔ اسی طرح تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیاوی امور میں تجربہ کے اصول کو تسلیم کرنے میں سبقت فرمائی ۔ حضرت طلحہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم ؐ کے ساتھ مدینہ میں کھجور کے باغات کے پاس سے گزرا تو آپ ؐ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھجوروں کی چوٹیوں پر چڑھے ہوئے ہیں ۔ آپ ؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ لوگ کیا کررہے ہیں ؟ میں نے کہا یہ نر کھجور کا بوراُتارتے ہیں اور مادہ کھجور پر گرا کر اس کے بور میں ملادیتے ہیں ۔ آپ ؐ نے یہ سُن کر یہ فرمایا :’’ میر ا نہیں خیال کہ یہ چیز انہیں فائدہ دے ‘‘۔ لوگوں تک آپ ؐ کی یہ بات پہنچی تو انہوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیا اور درختوں سے نیچے اُتر آئے ۔ہوایہ کہ اس سال کھجوروں نے پھل نہ دیا ۔ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم تک یہ خبر پہنچی تو آپ ؐ نے فرمایا:’’ وہ تو ایک انداز و گمان تھا جس کا میں نے اظہار کیا تھا ۔ اگر یہ علم کوئی فائدہ دیتا ہے تو اسے کرو۔ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں اور گمان یا اندازہ و خیال غلط بھی ہوتا ہے اور صحیح بھی ۔ ہاں جب میں تم سے یہ کہوں کہ : اﷲ تعالیٰ نے فرمایا تو میں اﷲ سے غلط بات ہرگز منسوب نہیں کرسکتا‘‘  ( رسول اکرم اور تعلیم : صفحہ :۸۱)