کیوں نہ انسان رہے شاد وآباد پھر

دونوں اطراف ہے نسلِ آدم مکیں، پھر یہ مابیں جنگ و جدل کِس لئے
ہے مسلّم کہ سب کا خدا ایک ہے ،پھر یہ تفریقِ رنگ و نسل کِس لئے

جِنسِ عالم سے ہے سیر یہ خُشک و تر، اِن میں خالق نے انساں کو دی ہے عقل
جامِ وحدت سے افکار ہیں اُسکے تر کچھ وہ کرتا ہے خود کو خجل کس لئے

کیف پرور فضائوں کے ماحول میں کیوں نہ انساں رہے شاد و آباد پھر
یہ مملکت ہے میری وہ مملکت ہے تیری، درمیاں یہ خیالی کدل کسِ لئے

خونِ انساں سے انسان نے کی ترزمیں، مثلِ زندہ جسکی فلسطینؔ کے مکیں
جنکے گھر اور گھروندے زمیں بوس ہیں، لفظِ اِنصاف پھر ہے عدل کس لئے

کارِ شیطاں کرے گر مہذب کوئی اسکو انسان کہنا غلط بات ہے
وہ تو صورت میں شیطان کی اولاد ہے، اُس سے رکھنا پھر رسم و رسل کِس

نسلِ آدم سے جو فرد وابستہ ہے، خیر و شر کا وہ جاوید گلدستہ ہے
اِک فلاح اُسکا دُنیا میں منشور ہے، اُسکا انسان ڈھونڈے بدل کِس لئے

جو بھی کرتا ہے عالم میں شیشہ گری، فہم میں اُسکے آتی نہیں خود سری
تلخ کامی کی دُنیا سے وہ دُور ہے، اُسکو عُشاق ؔپھر آئے اجل کِس کئے

عُشاق کشتواڑی
کشتواڑ، جموں،موبائل نمبر؛9697524469