کمر توڑ مہنگائی اورغریب عوام کی زندگی؟

منظور الٰہی،ترال 
 وادی کشمیر کے بازاروں میں مہنگائی سے غریب عوام کا جینا حرام ہوگیا ہے بازاروں میں چل رہی مہنگائی سے عام شہری کے لئے کیسی مصیبت سے کم نہیں ہے لوگ کہتے ہیں کہ مہنگائی کا جْن بوتل سے باہر آگیا ہے اور اس کو بند کرنے کے لیے کوئی بھی ہمت گوارا نہیں کر سکتا۔ ، مہنگائی کا بے قابو جن غریبوں کو نگل رہا ہے، آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بھوک و افلاس اور انتہائی شدید قسم کے غذائی بحرانوں نے عالمی سطح پر سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ دُنیا کے متعددممالک میں مہنگائی کے آسیب نے خوفناک صورتحال سے عوام کو دوچار کر دیا ہے۔ مہنگائی کی اس صورتحال نے دہشت ناک منہ کھول رکھا ہے۔ اس خوفناک صورتحال نے کشمیر کو بھی بُری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔وادی کشمیر میں روز مرہ کی اشیاء غریب کی دسترس سے بالا تر ہوتی جارہی ہیں۔ نہ صحت ٗ نہ تعلیم ٗ نہ رہائش آخر غریب کے لیے ہے کیا؟ مہنگائی کے باعث کئی لوگوں کی زندگیاں محدود ہو کر رہ گئے ہیں، مہنگائی کی اس خوفناک اور دہشت ناک صورتحال کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کشمیر اور یہاں کی عوام کس صورتحال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ ایک دو برسوں میں روز
مرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں 200 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے ،اس مہنگائی اور غذائی بحران نے کتنے افراد کے دلوں سے خوشیاں اور ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھین رہی ہیں ،عالمی سطح پر مہنگائی کا بول بالاتو ہے لیکن اگر ہم کشمیر کی بات کریں تو ہمارے کشمیر میں خوردنی اشیا مثلاً سبزی، دالیں، گوشت اور دیگر اشیا کی قیمتیں ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہیں، مہنگائی کی سطح عروج پر ہے جو غریب عوام سے کوسوں دور ہے۔ کشمیر کے بازاروں میں مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ معاشرے کا کون سا ایسا طبقہ ہے جو اس کمر توڑ مہنگائی سے براہ راست متاثر نہ ہوا ہو۔ غریب اور مزدور طبقے کی تو بات ہی مت پوچھئے ان کے یہاں تو چولہا جلنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ بھوک، افلاس، فاقہ کشی کا منظر، بھوک سے بلبلاتے بچے اس ناگفتہ صورتحال میں مزید پانی، گیس، بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی عوام کی مشکلات و پریشانی میں اضافے کا باعث بنا ہوا ہے۔ عوام جس صورتحال سے دوچار ہے ،وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ مہنگائی کے منہ زور طوفان نے کئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں،غریب دو وقت کی روڑی کے لیے پریشان ہے ۔وادی کشمیر کی بازاروں میں معمولی سبزی میوہ ،پھلوں کی قیمتوں میں بےتحاشہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔صارفین جو سبزیاں 30 روپے میں خریدتے تھے وہ آج 90سے زیادہ روپے میں فروخت ہورہی ہے، جب کہ ساگ ،کڈم ، ٹماٹر ، گاجر،مٹر ، پیاز، بندگوپی ، پھول گوپی ،آلو وغیرہ کی قیمتوں میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے اور یہی حال ہے باقی میوئوں اور پھلوں کے قیمتوں کی بھی ہے۔ گوشت اور مرغے کی تو بات ہی نہیں کرسکتے۔ مہنگائی کے اس بے لگام گھوڑے سے جموں کشمیر کی شہرسرینگر سے لیکر شوپیاں ، پلوامہ ، ترال؛ کولگام ، پہلگام ، کوکرناگ، اوڑی ، ٹیٹوال، کرناہ، گریز بانڈی پورہ کے علاوہ وسطی کشمیر کے بڈگام، گاندربل اور دیگر علاقوں کے علاوہ سرینگر اور دیگر قصبہ جات میں مہنگائی کے بازار برے پیمانے پرگرم ہے۔ ایسے میں اگر دیکھا جائے تو مہنگائی نے تشویش ناک صورتحال اختیار کر لی ہے اور سطح غریبی کے کے نیچے زندگی گزر بسر کرنے والے افراد کہیں نہ کہیں فاقہ کشی پر بھی مجبور ہو رہے ہیں۔ خوردنی اشیاء کی قلت اور مہنگائی دن بدن شدت اختیار کرتی جا رہی ہے جس نے غریبوں کا خون نچوڑ لیا ہے۔ کشمیری معیشت کا اُتار وچڑھاؤ عدم استحکام کا شکار ہے، جو اصل اور بنیادی مسئلہ ہے۔ پانی، گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف مہنگائی بڑھنے کا ہی نہیں بلکہ گداگری اور غربت میں اضافے کا بھی دوسرا نام ہے۔ لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ بیشتر گھرانے ایسے ہیں، جو ایک وقت کی روٹی کے لیے بھی ترس رہے ہیں ۔ پورا دن فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر مزدوری کی تلاش میں رہے والے، جو اعلیٰ تعلیم کے باوجود مشکل سے روزانہ چار پانچ سو کمانے والے اس صورت حال میں کس حد تک جی پائے گا؟ یہاں یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسا افراد کیسے زندگی گز بسر کرسکتا ہے اور کئی جگہوں پر تاجر حضرات اپنے من مانی اور مرضی کے مطابق چیزوں کو فروخت کر رہے ہیں، جن کو پوچھنے کے لیے یہاں پر کوئی نظر نہیں آرہا ہے اور انتظامیہ کی جانب سے کوئی بھی ٹیم پچھلے کچھ عرصہ سے بازاروں میں نہیں دیکھنے کو ملتی ہے۔اور نہ ہی سبزی پھلوں کی قیمتوں کے حوالے سے کوئی ریٹ لسٹ اجرا ہوتی ہے اور اگر ہوبھی رہی ہے تو اس پر کہیں بھی عمل نہیں ہورہا ہے۔ ہم امید کریں گے کہ ایل جی انتظامیہ اس مسئلے کو سنجیدہ لے کر وادی کے بازاروں کی طرف ٹیمیں روانہ کریں گے اور بازوں کی چیکنگ کریں تاکہ عوام کوکم از کم روزمرہ استعمال ہونے والی اشیائے خوردنی مناسب قیمتوں پر دستیاب ہوسکیں اور غریب عوام کسی حد تک راحت کی سانس لے سکیں ۔