استاد۔ قوم کا معمار! فہم و فراست

شیخ ریاض احمد سلفی
 استاذیہ وہ ہستی ہے جسکو سماج میں ہمیشہ بلند مقام حاصل ہوتا رہا ہے اور ہمیشہ ہوتا رہیگا۔ اس ہستی کو قوم کا معمار کہا اور سمجھا جاتاہے۔ یہ ہستی کسی تعارف کی محتاج نہیں بلکہ اس کا نام ہی کافی ہے اپنے صفات میں۔ اس ہستی کی تعریف کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ اس ہستی کی تعریف اس بات سے عیاں ہے کہ والدین کے بعد ایک انسان اگر کہیںمحفوظ سمجھا جاتا ہے تو وہ ذات استاذ کی پاک ذات ہے۔
اگرچہ موجودہ دور کے اساتذہ اپنے کردار کی عزت اور تعارف کرانے میں تساہل کا شکار ہوئے پھر بھی مقام وہی اور ہمیشہ وہی رہیگا۔ جہاں والدین اپنی بےلوث خدمات کے باعث اللہ تعالیٰ کے بعد بزگ ترین اشخاص ہیں وہی والدین کے بعد سب سے بڑا مقام استاذ کا بنتا ہے۔
استاذ کا کردار بچے کے ذہن پر نقش ہوتا ہے اور ایک بچہ استاذ کی جہاں عزت کرتا ہے وہی اس کے اداب اور اطوار کی نقل کرنا بھی اسکے زندگی کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔ ایک انسان کی نشو نما اور اخلاقی تربیت کا فریضہ والدین اور استاذ ملکر انجام دیتے ہیں اور اسی نشونما کی بنیادیں دونوں ہستیوں کے مخلصانہ کردار کی عکاسی بچے کے کردار میں نمایاں طور پر زندگی کے باقی مراحل میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ جہاں گھر بچے کا پہلا مدرسہ ہے ، وہیں استاذ کی ذات بچے کیلے تعلیم کا پہلا چشمہ ہے جہاں سے ایک انسان اپنے  مہذب اور ذہنی تربیت کی پیاس بجھا سکتا ہے۔ جسطرح پہلے گزر چکا ہے کہ استاذ ایک قوم کا معمار ہوتا ہے اور اس قوم کے کیا کہنے جہاں کے اساتذہ کے مخلصانہ اور غیر جانبدارنہ کردار کو نہ صرف ترجیح دی جاتی ہو بلکہ وہ اپنے ذمہ داریوں کو نمایاں طور بروےکار لاکر اپنے عظیم منصب کی پورے شدت سے سماج کی انسانی اور اخلاقی ترقی کیلئے اپنے کلیدی رول کا عملی طور پر اظہار کرتے ہیں ،ایسے ہی اساتذہ قوم کو بلند بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
لیکن جب ایک استاذ اپنے ذمہ دارنہ رول کو نبھانے میں کوتاہی برتا ہے تو قوم کے زوال کا باعث بہت حد تک اساتذہ کوٹھہرایا جاتاہے۔ کیونکہ استاذ نہ صرف تعلیم کا ذ مہ دار ہے بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کی اسی تعلیم کی عملی رہنمائی بھی استاذ کی ناگزیر ذمہ داری میں ایک ذ مہ داری ہے۔ ایک ایسا سماج بنانے کی وقت کی اشد ضرورت ہے جہاں استاذ کی عزت کے ساتھ ساتھ انکا رعب کا دبدبہ بھی رائج ہو، جہاں اگرچہ عقل نما استعمال کرنے کی ممانعت ہو مگر اساتذہ کو اپنی ذمہ داری نبھانے میں کوئی بھی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے تاکہ ایک پڑھنے اور پڑھانے والے کا امتیاز ہو سکے ورنہ پڑھنے اور پڑھانے کا عظیم منصب اور اسکی افادیت ختم ہو جا ئےگی۔
جہاں ہم اساتذہ کی عزت اور رعب کی بات کرتے ،وہاں اصاف یہ بھی ہے کہ اس ذ مہ داری کا بھی ذکر کیا جائے جو ایک استاذ کو ذہن میں نقش کرنا چاہئے کہ والدین کے بعد ایک طالب کی عزت و عصمت کا رکھوالا ایک استاذہی ہے اور ہونا بھی یہی چاہے کہ استاد نہ صرف تعلیم کا مرکز بلکہ ایک طالب کیلئےاستاذ ایک باپ، ماں، بھائی، بہن اور کبھی ایک دوست بھی ہوتا ہے،یہی وجہ کہ طالب علم کے ذہن میں استاد کی بات سب سے زیادہ اثر پزیر ہوتی ہے۔ حق و ناحق، انصاف اور ناانصافی، اچھا یابُرا، چھوٹا اور بڑا، عزت اور بے عزتی غرض جتنے بھی تقابلی چیزیں ہیں انکا علم ارو معرفت ایک استاذ کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے اور سماجی ہم آہنگی بھی تعلیم کے ادارے کی اولین ذمہ داری ہے جہاں انسانیت کا عظیم فلسفہ پڑھایا اور سکھایا جاسکے۔
استاد کا اولین فریضہ ہے کہ اپنے طالب علموں کی تربیت سماج کے فلاح اور بہبودی کے حاصل کرنے کیلئے کرے، جس سے سماج کا تہذیبی وقار بلند ہو اور غیر اخلاقی اور غیر سماجی اعمال کا قلع و قمع بھی اسی سماج کے عظیم سرچشمہ سے شروع ہونا چاہئے۔ ایک والد کی حیثیت سے میری تمام والدین حضرات سے مخلصانہ اور مودبانہ گزارش ہے کہ اساتذہ کے کردار اور ذمہ داریوں کو صحیح انجام تک پہنچانے میں رکاوٹ نہ بنیںبلکہ اساتذہ کے ساتھ شانہ بشانہ اپنے اولادوں کی سچی اور اچھی تربیت کرنے میں آگے آئیں اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی کسی بھی صورت میں ہو، ضرور کریں اور کوتاہیوں کو درگزر کرکے اولادوں کو اپنے اساتذہ کی عزت و اکرام کرنے کی طرف راغب کریں، تبھی یہ سماج اچھے کیلئےبدل سکتا ہے۔ اور ایک گزارش ان تمام اساتذہ سے بھی ہے کہ تعلیم دینے کیلے کمانا کوئی عیب کی بات نہیں بلکہ یہ آپکا پیدائشی حق ہے لیکن اس عظیم کام کو تجارت بنانا کسی بھی سماج اور اخلاقی طور ہرگز قبولیت نہیں مل سکتی، کیا پتہ آپ کا فیس دینے میں کوئی غیر اخلاقی اورغیر سماجی فعل میں گرفتار ہو جائے، جسکا خمیازہ نہ صرف وہ طالب علم بلکہ سماج کو بھگتنا پڑے۔
آج استاذ کی ذات کے کردار کی اہمیت اور زیادہ بنتی ہے کیونکہ آج کا سماج ان تمام قسم کے اخلاقی گراوٹ سے دوچار ہے جس سے بچنا بہت مشکل ترین کام معلوم ہوتا ہے۔ آج بچوں کے ہاتھ میں وہ چیز ہے جس سے استعمال کرکے اس کا ذہن ان تمام برائیوں سے آشنا  ہے، جن کا تصور آج سے تین دہائیوں  پہلے کرنا ناممکن تھا۔ آج دنیا کی ہئیت بلکل بدل چکی ہے، دور سے دور ممالک آپس میں اس طرح جڑے ہیں کہ لگتا فاصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا اور لوگ کھل کر اپنے جذبات اور احساسات دوسرے لوگوں سے بنا کسی رکاوٹ کے شیئر کرتے دکھائی دیتے ہیں، لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ایک ایسی ڈور سے بندھے ہیں جوبالکل عجیب اور اجنبی لگتی ہے۔ باوجود اس کے کہ نئے رشتے جڑ رہے لیکن قریب کے رشتوں میں دراڑ آنی شروع ہو گئی ہے۔ دور کے لوگ پاس تو آرہےہیں لیکن قریب کے لوگ دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس غیر یقینی دور میں استاذ کے کردار کی اہمیت اور زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ بچے سکول میں نسبتاً گھر کے زیادہ وقت بتاتے ہیں۔ جس طرح گھر میں والدین کا کردار اہم ہے، اسی طرح سکول میں استاذ کا رول بہت اہمیت کا حامل ہے۔
تعلیم کا مقصد ایک انسان کی پہچان ان تمام چیزوں سے کروانا، جس سے سماج کو فائدہ ملے اور جس سے ایک تعلیم یافتہ اور باکردار سماج کی پزیرائی ہو ،جہاں انسانیت کے تقاضوں کو تقویت مل سکے۔ جہاں منشیات، اخلاقی اور معاشرتی پستی کو جڑ سے ختم کرنے کی تگ ودَو جاری و ساری ہو۔ جب یہ کام اس عظیم تربیتی مرکز کا منشور بن جائے تو کیا اللہ کی رحمت ہمارا سہارا نہ بنے گی۔ یقیناً اللہ کی رحمت اور برکت سے ہمارا سماج روشن مستقبل کا ضامن ہوگا۔
اگر اللہ اور رسولؐ کے بعد کسی سے ڈرنا بنتا ہے تو وہ استاذ کی ذات ہے۔ یہ ڈر، ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ استاذ کے غیر معمولی کردار اور رول کی وجہ سے اور عزت پر مبنی ہوتا ہے۔
میرا سلام ان تمام اساتذہ کے نام جن کی مخلصانہ محنت اور کاوشوں سے آج بھی سماج میں ایسے دانشور ہیں جو اپنی استطاعت کے مطابق اپنا رول سماج کی اعلیٰ قدروں کو اُجاگر کرنے میں صرف کرتے ہیں۔