صنعتی انقلاب اور ماحولیات اسلامی نقطہ ٔنظر

ڈاکٹرمحمد اقتدار حسین فاروقی
 ماحولیات  (Enviroment)کا مفہوم ہمارے ارد گرد موجود عناصر اور حالات کے ہیں جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر ہماری زندگیوں کو متاثرکرتے ہیں۔ ان میں زمین ۔پانی، ہوا، سورج کی روشنی اور گرمی، نباتات اورجانور، شامل ہیں ان سب کا باہمی تعلق اور ہم آہنگی ہماری زندگیوں کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس ہم آہنگی میں تبدیلی اور خلل ڈالنے کے معنی فطرت کے متوازن اور مستحکم نظام میں دخل دینا ہے۔یہ توازن انسانی بقا کے لئے لازم ہے۔ یہ وہ توازن ہے جو جاندار اور بے جان کے درمیان لاکھوں سال سے موجود رہاہے۔ اقوام متحدہ کا ماحولیات پروگرام (UNEP) ماحولیات کے حوالے سے ایک سرکردہ عالمی ادارہ ہے۔جسکاکا مشن مستقبل کی نسلوں کے ساتھ سمجھوتہ کیے بغیر قوموں اور لوگوں کو ان کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی ترغیب دینا اور آگاہ کرنا۔پچھلے پچاس سالوں سے، UNEP نے حکومتوں، سول سوسائٹی، نجی  اداروں کے ساتھ مل کر انسانیت کے سب سے زیادہ  خطرنات ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کام کیا ہے – اوزون (Ozone)  کی تہہ کی بحالی کے لئے ۔۔ دنیا کے سمندروں کی حفاظت اور نباتات کی بنیاد  پر معیشت کو فروغ دینےکے لئے بہت اہم کام انجام دیا ہے۔۔
UNEP آب و ہوا کی تبدیلی، فطرت اور حیاتیاتی تنوع   (Biodiversity)کے نقصان اور آلودگی کے بحران کی بنیادی وجوہات پر تحقیق کر کے تبدیلی کو آگے بڑھا رہا ہے۔اسکا کام مختلف ممالک کو کاربن کے وسائل کوبچانے کے لئے طریقے  بتانا ہے،  اسکے علاوہ ماحولیاتی نظم کو نقصان کے قانون کو مضبوط بنانے کی ترغیب دیناہے، دنیا کے ممالک میں ماحولیاتی نظام کی حفاظت کے لئے اقدام سے واقف کرانا بھی ہے۔
بیسویں صدی کی حیرت انگیز سائنسی کامیابی اور صنعتی  انقلاب نے جہاں ایک طرف انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں سہولیات اور آسائشوں کی فراہمی کو عام کردیاہے وہاں وسری جانب چند ایسے مسائل بھی پیدا کردیئے ہیں جن کی بنا پر اقبال کا یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا کہ    ؎
’’یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہہکامل نہ بن جائے‘‘۔
صنعتی انقلاب سے پیدہ شدہ مسائل اتنے پیچیدہ ہیں اور انکے حل اتنے دشوار ہیں کہ ساری دنیا کی حکومتیں انتہائی پریشان ہیں۔ دانشور حضرات متفکر ہیںاور عوام میں بے چینی ہے۔ ان مسائل میں بڑی حد تک خطرناک مسئلہ ماحولیات کے توازن کا بگڑنا ہے۔یہ توازن انسان اور حیوان کے بیچ رہا ہے اور جس میں  کلیدی رول نباتات کارہا ہے۔ انسان، جنگلات، پہاڑ اور ان پر جمے گلیشیر، ندیاں، میدان، سمندر اور ان کو گھیرے میں لئے ہوئی فضائیں۔ یہ سب ہی ایک خاص انداز، مقدار اور تعداد میں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں اور قدرت کے نظام کا لازمی حصہ ہیں۔ ان میں کسی ایک کا کمزور پڑنا، یا کم ہوجانا دوسرے کے لئے مشکلات پیدا کرسکتاہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے اس توازن کے بگڑنے میں انسان کا حصہ دار ہونا ایک گناہ ہے اور قدرت سے ٹکرانے کے مترادف ہے۔ اس گناہ کی طرف بہت واضح اشارے قرآن وحدیث میں موجود ہیں جن کا سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
اسلامی نظریہ کے اعتبار سے اللہ سارے جہان پر محیط ہے۔ دنیا کی ہرشے اس کی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ قرآنی ارشاد ہے کہ  :
 ترجمہ ؛ بے شک انسان کی تخلیق سے بڑی آسمانوں اور زمین کی تخلیق ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے (قرآن 40:57)۔
اور یہ بھی تو فرمایا ہے کہ ۔ ترجمہ ۔ا ور (سب) اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہر چیز کا احاطہ فرمائے ہوئے ہے  (سورہ النساء۔ ۱۲۶)
یہ آیت بہت صاف طور پر ظاہر کرتی ہے کہ اس کرہ ارض کا ماحول (Environment) اصل میں خدائی ماحول (Divine Environment) ہے۔ چنانچہ ماحولیات میں دخل اندازی اور بیجا تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جو خدائی نظام کی خلاف ورزی ہے۔ انسان اکثر اسی غفلت کی بنا پر اللہ کو ماحول سے الگ کرکے  اپنے تصور میں لاتاہے  گویا روحانیت اور مادیت دونوں جدا جدا ہیں، چنانچہ وہ ماحول (Environment) کا غلط استعمال شروع کرتے ہوئے اس میں موجودہ توازن کو نقصان پہنچاتاہے۔ ایسا کرنا قرآنی الفاظ میں زمین پر فساد بپا کرناہے۔ جس کے لئے یوں فرمایا گیا  :
ترجمہ۔ اور مت چاہ فساد بیچ زمین کے، بیشک اللہ دوست نہیں رکھتا فساد کرنے والوں کو۔ (سورہ القصص۔ آیت ۷۷)
         ماحولیات (Environment) کی حفاظت انسان کے لئے لازمی اس لئے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس سرزمین پر اپنا خلیفہ بنایا ہے، اس وعدہ کے ساتھ کہ وہ اس دنیا میں اللہ کی حکومت قائم کرے گا۔ فرشتوں کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے  :
 اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا:کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا؟ جب کہ ہم تیری ثناء کی تسبیح اور تیری پاکیزگی کا ورودکرتے رہتے ہیں، (اللہ نے) فرمایا: (اسرار خلقت بشر کے بارے میں) میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔(سورہ البقرہ۔ آیت ۳۰) اور اس طرح بھی واضح فرمایا گیا ہے :
کیونکہ وہی ہے جس نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنایا  اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات بلند کیا ہے،تاکہ وہ تمہیں آزمائے اس کے ذریعہ جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے۔اور اس کے بعد ہم نے تم  کو زمین پر ان کا خلیفہ بنایا۔تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو (قرآن 6:165)۔لیکن یہ ذہن نشین رہے کہ جہاں ایک طرف اس سرزمین پر انسان کو اللہ کا نائب (خلیفہ) مقرر کیا گیا ہے وہاں دوسری جانب وہ اس کا غلام (عبداللہ) بھی ہے۔ گویا کہ وہ اللہ کی جانب سے حکومت تو کرسکتاہے لیکن نظام قدرت میں تبدیلی کا حق نہیں رکھتا ہے۔ وہ اللہ کی پیدہ کردہ نعمتوں سے مستفید تو ہوسکتاہے لیکن ان نعمتوں کے توازن کو بگاڑنے کا اختیار نہیں رکھتا ہے۔ اللہ نے ’’انسان کو بہترین انداز (توازن) کے ساتھ پیدا کیا ہے۔‘‘ (سورہ التین۔ آیت ۴) اور وہ (انسان) جس طرف منھ کرے گا ادھر ہی اللہ کا رخ پائے گا۔ (سورہ البقرہ۔ آیت ۱۱۵)۔ ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ زمین وآسمان کے درمیان کی ہر شئے انسان کے لئے مسخر تو کردی گئی ہے۔ اس کی بابت فکر کرنے اور اس کے موزوں استعمال کی اجازت بھی دی گئی ہے لیکن اس کے توازن میں تبدیلی نہ کرنے کی تنبیہ بھی دے دی گئی ہے۔
قرآنی ارشادت کی روشنی میں رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو ماحولیات (Environment) کے تحفظ کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ اس طرح ہدایات دیں کی عام مسلمانوں نے نباتات او رحیوانات (Flora and Fauna) کی حفاظت کو ایک اسلامی شعار سمجھا۔ نخلستان، باغات، ندیاں، جھرنے، چرند اور پرند غر ضیکہ ہر چیز ان کے لئے Divine Environment کا حصہ بن گئی۔ غزوات میں اس بات پر خاص خیال رکھا جانے لگا کہ دوران جنگ اور معرکہ آرائی کھیتوں اور ہرے درختوں کو نقصان نہ پہنچنے پائے۔ جانورورں اور پرندوں کا شکار بلاضرورت اور صرف شوق (Sports) کے طور پر کرنے کا چلن ختم کردیا گیا۔ نبی کریم ﷺ کی اس ضمن میں بہت واضح ہدایات مسلمانوں کے پاس تھیں۔ رسول اللہﷺ نے ایک موقعہ پر جہاں پیاسے جانوروں کو پانی پلانے کے عمل کو قابل ثواب عمل قرار دیا وہاں یہ بھی بتایا کہ پودوں کو پانی دینا بھی ایسا ہی فعل ہے جیسا کہ پیاسے آدمی کو پانی پلانا۔ درختوں کے لگانے کو صدقہ بتایا، صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق نبی کریمﷺ نے فرمایا  :
’’جو مسلمان کوئی درخت لگائے گا اور اس میں (پھل یا چارہ) سے کوئی انسان یا جانور کھائے گا تو بونے والے کے لئے وہ تاقیامت باعث ثواب (صدقہ) ہوگا۔ (راوی۔ حضرت جابر بن عبداللہ)۔  درختوں کے بلا ضرورت کاٹے جانے پر رسول اللہﷺ نے اپنی شدید ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک صحابی کو سدر (انگریزیCedar) کی لکڑی سے بنے دروازہ سے ٹیک لگائے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ  :’’یہ ایک بدعت (لعنت) ہے‘‘   (سنن ابوداؤد)  اور پھر حضرت حسان بن ابراہیم سے یہ بھی روایت ہے کہ  :’’میں نے مکہ میں کسی کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی سدر (cedar) کاٹنے والوں پر۔ (کتاب الادب۔ سنن ابوداؤد)
حضرت عبداللہ بن حبشی یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ  :’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سدر کا درخت کاٹے گا اللہ اس کو سر کے بل اوندھا جہنم میں گرادے گا۔   (سنن ابوداؤد)
        ماحولیات  (Environment) کو خدائی ماحولیات (Divine Environment) تصور کرنا عین اسلامی طرز فکر ہے۔ افسوس کہ مادیت میں غرق مغرب کی ترقی یافہ تہذیب میں اس حقیقت کو نہ سمجھا جاسکا اور مادہ پرستی کے اثر میں ماحولیات کو اس قدر نقصان پہنچادیا کہ جس کی تلافی بظاہر ممکن نظر نہیں آتی۔ دوسری جانب مشرقی قوموں میں بالعموم اور مسلم اقوام میں بالخصوص مادیت سے بیزاری اتنی بڑھی کہ ماحولیات کا جاننا تک ہی ان کا فریضہ نہ رہا۔  ۔ قدرت کے نظام میں حصہ لینا، زمین وآسمان کے اسرار کو سمجھنا ان کے نزدیک مادہ پرستی ہوگئی ۔ بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ ماحولیات کے تحفظ کو دینی عمل سمجھا جائے اور مادیت اور روحانیت کو ساتھ لے کر کرہ ارض کو مہہ کامل بنانے کا عزم کیا جائے۔