کس لئے خوشیاں مناتے ہو میاں

سالِ رفتہ کل تلک مہمان تھا

ہر کلینڈر پہ لئے پہچان تھا
باحیات سویا تھا شب کو بے خبر

صبح جاگے تو یہی بے جان تھا
وقت پہ کرتے ہیں ناداں اعتبار

اسکو مشفق کرتے ہیں اکثر شمار
بے وفا سے پھر وفائوں کی اُمید

کیوں کیا کرتے ہو ناحق بار بار
سالِ رفتہ دوستو بے دم ہوا

ختم اسکا سارا زیر و بم ہوا
کس لئے خوشیاں مناتے ہو میاں

سال اپنی عمر کا ہی کم ہوا
ہے رقم رُوداد کا وقتی بیاں

سلف اپنے ہوگئے سارے رواں
ایک دن ہم بھی رواں ہونگے ضرور

اور ہوگی زندگی دھواں دھواں
ہم نے دیکھی ہے مغنی کی بہار

خود کو کہتا تھا کبھی یہ مالدار
اب لئے پھرتا وہی کشکول ہے

ہیں سبھی یہ وقت کے لیل و نہار
سالِ رفتہ کو کہواب الوداع

وقت نے اسکو کیا ہم سے جُدا
سالِ نو کے مہر کی آمد ہے دوست

یہ پیامِ مہر لائے اے خُدا
آپ سے عُشاق ؔہے رخصت طلب

لفظ ِ رُخصت خود بخود آیا بہ لب
کیا پتہ کل ہونگے زندہ یا نہیں

ہے اِسی خیال میں ڈوبا قلب

ایک دن ہم بھی تھے آذرؔ پُرجلال
پک گئی اب اپنے حصے کی ہے دال
موت دیتی ہے بھلا مہلت کِسے
ختم ہونے کو ہیں اپنے ماہ و سال

عُشاق کشتواڑی
صدر انجمن ترقی اردو (ہند) شاخ کشواڑ،موبائل نمبر;9697524469