پتنگ

 

ہو دھانی کوئی یا سنہری پتنگ
نگاہوں کو جچتی ہے اُڑتی پتنگ
یہ اڑتی نہیں ہے بنا ڈور کے
زمیں پر وہ آئی جو کاٹی پتنگ
بسنت آتے ہی میں اُڑاؤں اُسے
مجھے راس آئے بسنتی پتنگ
ذرا سا ٹھہر کے ہوا میں اُڑے
ادا خوب اپنی دکھاتی پتنگ
خطرناک ہے کھیل یہ تو بہت
جو تاروں سے دھاتی،اڑاتی پتنگ
مربع، مثلت تو چوکور ہیں
سبھی نے ہے اپنی بنائی پتنگ
ادھر شور’’بوکاٹا‘‘ اُٹھنے لگا
ادھر ہم نے کاٹی ، کس کی پتنگ
عمریا،مری مجھ سےکہتی ہے یوں
کبھی مجھ کو لا دو،وہ پیاری پتنگ
وہ کیا دن تھے انجمؔ کہ بچپن میں ہم
اڑاتے تھے اچھی سی اچھی پتنگ

فریدہ انجم
پٹنہ سٹی ، بہار