والدین پر اَولاد کے حقوق! تربیت میں تغافل سب سے بڑا ظلم ہے

عمران بن رشید

ایک حدیث کا متن رقم کررہا ہوں ۔یہ حدیث صحیح بخاری میں ابو ہریرہؓ سے روایت کی گئی ہے ۔فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یانصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں(1385)۔اس حدیث سے جہاں اور بھی کئی مسلے حل ہوتے ہیں وہاں اس حدیث سے یہ ایک اہم نکتہ یہ بھی مترشح ہوجاتا ہے کہ ایک بچے کی ذہنی ساخت اور نفس کا تذکیہ من وعن والدین کی تربیت پر منحصر کرتا ہے۔والدین اپنی اولاد کی تربیت جس نہج پر کرنا چاہیں کرسکتے ہیں،جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘تمہارے غلاموں کو اور تمہارے نابالغ بچوں کو تین اوقات میں(تم سے) اجازت طلب کرناچاہئے ایک فجر سے پہلے دوم دوپہر کو اس وقت جب تم اپنے کپڑے اتارتے ہو(قیلولہ کے لئے؍Nap)اور عشاء کے بعدان کے بعد تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ اُن پر‘‘(النّور،58)۔ یعنی آپ اپنی اولاد کو اس بات کی تعلیم دیں کہ ان تین اوقات میں وہ بغیرِ آپ کی اجازت آپ کے کمروں میں داخل نہ ہوں ۔اس آیت کے ذریعے گویا والدین کی تربیت کی جارہی ہے کہ وہ اپنی اولادکو تعلیم و تربیت سے مزین کریں ‘اولاد کی درست تربیت جب ہی ممکن ہے کہ والدین تربیت یافتہ ہوں۔ایک عالمی شہرت یافتہ ماہرِ نفسیات (psychologist) ڈیل کورنیجی Dale carnegieکی تصنیف کردہ کتاب’’how to stop worrying and start living‘‘میں مصنف نے ایک بہت ہی وزن دار جملہ لکھاہے وہ جملہ ہے ’’why should children be thankful unless we train them to be‘‘ (صفحہ140)۔یعنی بچے شکرگزار اور فرمانبردار کیوں کر بنیں گے جب تک کہ اُن کو شکرگزار اور فرمانبردار بنایا نہ جائے ۔
آج جب اکثر و بیشتر لوگ یہ رونا روتے ہیں کہ نئی نسل نافرمان‘بے راہ رَواور بے حیا ہوئی جاتی ہے تو میرا ایک سادہ سا سوال ہے کہ اس کے محرکات کیا ہیں؟آپ کا یہ رونا چہ معنی دارد؟ کیا آپ نے اپنی ذمہ داری نبھائی؟بچے سے پہلے اُس کے والدین پر انگلی اُٹھتی ہے ‘ ایک بچے کی تربیت سے پہلے والدین کا تربیت یافتہ ہونا لازم ہے۔یہ ایک منطقی اصول ہے کہ فصل اسی زمین میں اگتی ہے جوزمین زرخیز ہو‘بنجر زمین میں محض خاردار جھاڑیاں ہی اُگا کرتی ہیں۔ مجھے مرحوم عبدالرحمٰن مخلصؔ کا ایک جملہ یاد آرہا ہے جو انہوں نے اپنی تصنیف ’’زندگی کے رنگ‘‘ میں ایک جگہ رقم کیا ہے کہ ’’یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ آج کا معاشرہ بگڑا ہوا ہے ۔ہر کوئی نالاں ہے،امیر ی کی سطح سے اوپر رہنے والا بھی ،امیر بھی ،متوسط بھی اور غریب بھی۔لیکن بگاڑ کی وجوہات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی ہیں۔لیکن بات صاف ہے لوگ اپنے بچوں کو ایک بارِ گراں تصوّر کرکے اُن کے کردار کی تعمیر کرنے کے بجائے دولت بٹور نے میں لگے ہیں‘‘(زندگی کے رنگ،161)۔ آپ کو ایک فطری بات بتائوں جو سائنسی طور پر بھی درست مانی جاتی ہے وہ یہ کہ بچے نقال ہوتے ہیں جو بڑوں کی حرکات وسکنات کو بہت جلد نقل کرتے ہیں ۔ لہٰذا آپ اپنے گھروں میں جو ماحول میّسر رکھیں گے، آپ کے بچے اُسی کی نقل کرتے کرتے اپنی اصل زندگی کو تشکیل دینگے۔ اس پُرفتن دور میں اپنے بچوں کی تربیت کا اہتمام کریں۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے ’’مروا اولادکم بالصّلاۃِ وہم ابنائُ سبع سنین واضربوھم علیھا و ھم ابنائُ عشر سنین و فرِّ قوا بینھم فی المضاجع‘‘یعنی اپنی اولاد کو حکم دو نماز کا جب وہ سات سال کی عمر کے ہو جائے اور دس سال کی عمر میں اگر وہ نماز نہ پڑھے تو انہیں اس پر مارو اور اسی عمر میں ان کا بسترا جدا جدا کردو۔یہ حدیث سنن ابی دائود میں وارد ہوئی ہے اس کی سند صحیح ہے۔حدیث کے الفاظ پر غور کیجئے (مروا اولادکم)یعنی اپنی اولاد کو حکم کیجئے،یہ خطاب والدین اور سرپرستوں سے ہے ۔ابن عبدالسّلام ؒ کہتے ہیں کہ حکم کے مخاطب سرپرست حضرات ہیں بچے نہیں(فیض القدیر)۔آپ کو بتادوں کہ حکم وجوب کاتقاضا کرتا ہے(اَلْاَمْرُ یَقْتَضِیْ الْجُوْب) گویا والدین پر واجب ہے کہ وہ اپنی اولاد کو نماز کا حکم دیں اور اگر دس سال کی عمر کو پہنچنے پر اولاد نماز نہ پڑھے تو انہیں ماریں ،پھر یہ بھی واجب ہوا کہ دس سال کی عمر میں بچوں کا بسترا جدا کیا جائے۔
غور کریں کہ اسلام کس درجہ حساس دین ہے جب دس سال کی عمر سے ہی بچے میں یہ شعور پیدا کیا جائے گا تو یقیناًاُس کا ذہن پراگندہ ہونے سے محفوظ رہے گا۔ تر بیت دراصل دو طرح کی ہوتی ہے ایک وہ تربیت جس کی بنیاد خوف پر ہوتی ہے یعنی آپ اپنی اولاد کو خوف زدہ کرکے کسی برائی سے روک لیتے ہیں ،اس طرح کی تربیت اگرچہ وقتی طور پر سود مند ثابت ہوتی ہے لیکن بالآخر اس کے بہت ہی برے نتائج سامنے آتے ہیں۔اس سے بچے کی ذہنی نشونما درست طریقے پر نہیں ہوپاتی اور بعض اوقات اس سے بچے کی جسمانی نشونما بھی متاثر ہوتی ہے۔دوسرا یہ کہ اس سے بچے کے اندر چھ چھورا پن آجاتا ہے اور وہ احساسِ کمتری میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ا س کے برعکس تربیت کی دوسری قسم یہ ہے کہ بچوںکو جواب دہ (Accountable)اور ذمہ دار (Responsible)بنایا جائے۔ جہاں تک نماز نہ پڑھنے پر اُن کو مارنے کا تعلق ہے تو وہ تعدیب اور تربیت کے لئے ہے ،خوف زدہ کرنے کے لئے نہیں ۔ شیخ علقمیؒ نے لکھا ہے ’’پٹائی سے مراد ایسا مارنا ہے کہ بچہ زخمی نہ ہو اور مارتے ہوئے چہرے کو بچایا جائے‘‘(منقول از عون المعبود)۔ مختصر یہ کہ آپ کی اولاد محتاج ہے آپ کی تربیت کی اور آپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ اپنی اولاد کی تربیت کا اہتمام کریں ۔چنانچہ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے ’’الرّجل راعٍ علی اہل بیتہ وھوا مسئولٌ عن رعیّتہ‘‘(البخاری؍7138)یعنی مرد نگہبان ہے اپنے اہل خانہ پر اور اُ س سے پوچھا جائے گا اُس کی رعیت یعنی اہل خانہ سے متعلق ۔یہاں قرآن کی وہ آیت بھی آپ کے سامنے رکھ دوں جو اس ضمن میں قرآن کی اہم ترین آیات میں سے ہے ‘سورہ التّحریم میں یہ آیت آئی ہے جس کے ابتدائی الفاظ ہیں ’’یَاایُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُواقُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِکُمْ نَارًا وَّ قُوْدُھَاالنَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ‘‘یعنی اے لوگوجوایمان لائے ہو!بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔اس آیت میں بھی ’’قُوْا‘‘کے لفظ میں حکم دیا گیا ہے اور میں پہلے ہی اصول بیان کرچکا ہوں کہ حکم وجوب کا تقاضا کرتا ہے ۔اور آیت کی ابتداء ’’یَاایُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا‘‘سے ہوئی ہے ‘حسن بصریؒ کہتے ہیں کہ جب قرآن میں ’’یَاایُّھَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا‘‘کہا جاتا ہے تو اِ س کے بعد ضرور کوئی حکم دیا جاتا ہے،گویا اس آیت سے بھی والدین پر اولاد کی تربیت کرنا واجب ثابت ہوجاتا ہے۔ حافظ صلا ح الدین یوسفؒ لکھتے ہیں ’’اس آیت میں اہل ایمان کو ان کی ایک نہایت اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور وہ ہے اپنے ساتھ اپنے گھروالوں کی بھی اصلاح اور ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرناتاکہ یہ سب جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں‘‘(تفسیر احسن البیان)۔
مادی ضروریات کاپورا کرنا جیسے گھر‘لباس اور کھانا وغیرہ میّسر کرنازندگی کی اہم ترین ضروریات میں سے ہیںکہ ان سب کے بغیر گذارا ممکن نہیں۔لیکن محض ان ہی ضروریات لے لئے کوشاں رہنا ،دن رات ان ہی کے حصول میں لگے رہنا اور اولاد کی تربیت کو بارِ گراں سمجھنا موجودہ سماج کی ایک بین حقیقت ہے ۔اکثر والدین اس خوش فہمی میں جیتے ہیں کہ اولاد کے لئے دولت کے انبار لگا کر انہوں نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے اور فخریہ لہجے میں اس کا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔لیکن یاد رکھئے کہ مادی ضرورتیں تو چوپائے بھی پوری کر لیتے ہیں،انسان پر اس کے بعد بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔سورہ الاعراف میں اللہ تعلی کچھ لوگوں کے متعلق فرماتا ہے ’’لھم قلوب لایفقہون بھاولھم اعین لایبصرون بھا ولھم اٰذان لایسمعون بھا اولٰئِک کالانعامِ بل ھم اضّل‘‘یعنی ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اوران کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں،یہ لوگ چوپائوں جیسے ہیںبلکہ یہ ان سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں‘‘(اعراف۔179)
(سیر جاگیر سوپور،رابطہ۔8825090545)
[email protected]>