جہلم کے نام خط ! گنڈ بل المیہ

سہیل سالم ؔ

کشمیر جسے ایران صغیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور جنت بے نظیر سے بھی ۔لیکن جہلم گواہ ہے کشمیر کو المیوں کی سرزمین کے خطاب سے بھی نوازا گیاہے۔گزشتہ دنوں میں گنڈ بل بٹہ وارہ میں ایک المناک سانحہ درپیش آیاجس نے انسانی ہوش وحواس کی بنیاد ہلا کے رکھ دی۔جس نے ہر ایک آنکھ کو آنسو بہانے پر مجبور کیا۔16 اپریل منگلوار کی صبح کو سوشل میڈیا کے توسط سے یہ خیر آگ کی طرح پھیل گئی کہ کشی ڈوبنے کی وجہ سے جہلم میں 26 افراد ڈوب گئے ۔وادی کے اطراف و اکناف سے لوگ جائے واردات پر پہنچ گئے۔جس کسی نے بھی اس دلخراش سانحہ کے بارے میں سنا یا سوشل میڈیا کے توسط سے یہ المناک مناظر دیکھے وہ خون کے آنسو رونے لگا۔دل و جان آہ فغاں کی بستی میں غرق ہوا۔اس سانحہ نے پوری وادی کو ماتمی فضا سے پریشان کیا۔ہر طرف آہ زاری کا سایہ چھا گیا۔گنڈ بل کے آس پاس رہنے والے لوگوں نے ڈوبنے والوں کی المناک صدائیں سن تو لی لیکن وہ جہلم کے خوفناک چہرہ دیکھ کر کچھ نہ کر سکے کیونکہ موسمی تغیر اور مسلسل بارش کی وجہ سے جہلم نے ایک بیانک روپ دھار لیا تھا جس کی وجہ سے پانی کی سطح بلندی کو چھو گئی تھی اور پانی کی رفتار میں تیزی آچکی تھی۔جہلم کے اس خوفناک چہرہ نے جن لوگوں کو نگل لیا ان میں زیادہ تر نونہال شامل تھے۔یہ وہ بچے تھے جنہوں نے ابھی زندگی کوقریب سے نہیں دیکھا تھا،یہ وہ بچے تھے جو ابھی اپنی مستی میں مصروف تھے اور یہ وہ خواب تھے جو شر مندہ تعبیر ہونے والے تھے۔یہ وہ بچے تھے جن کے والدین اس خبر سے نا آشناتھے کی منگلوارکی صبح ان سے ان کی سانسیں چھین لی جائے گی اور یہ اپنے نامکمل سفر کو ادھورا چھوڑ کر اصلی سفر پر رورانہ ہونگے۔بقول اقیال ؎
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوق سفر کے سوا کچھ ا ور نہیں
بچے اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں میں سے نعمت عظمی تصور کی جاتی ہے۔بیٹی کے روپ میں ہو تو رحمت،بیٹے کے روپ میں ہو توبر کت اور نیک اولاد کے مقابل تو تمام سرمایہ بے حیثیت اور صفر ہے۔ہمیں اس نعمت کی قدر اور اچھی تربیت کرنی چاہے۔ کسی نے خلیل جبران سے پوچھا۔میں باپ بننے پر بے حد خوش ہو،بھر پور اظہار تشکر کیسے ممکن ہے؟’جواب ملا’اولادکی اچھی تربیت‘ان سے جددرجہ محبت کیسے ممکن ہے؟جواب ملا’اولاد کی اچھی تربیت‘تو اولاد کی اچھی تربیت کیسے ممکن ہے؟جواب ملا’قران وحدیث‘۔ہر مسلمان اللہ تعالی سے نیک اولاد کی التجاکرتا ہے حتی کہ انبیاء کرام بھی نیک اولاد کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے ۔نیز وہ لوگ جو دعائیں مانگتے ہیں کہ اے پروردگارہم کہ ہماری بیویوں اوراولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما پرہیز گاروں کا پیشو ابنا(فرقان ۷۳)۔اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کرنی چائیے۔یہ وہ انمول سرمایہ ہے جو بعد ازمرگ بھی والدین کے لئے جنت کا سبب بن سکتی ہے۔گنڈ بل بٹہ وارہ کے اس عظیم سانحہ میں جو نونہال شہید ہوگئے ان کے والدین نے ان کو کس ناز ونعمت سے ان کی پرورش کی ہوگی۔جب ان بچوں نے ٹفن لینے سے انکار کیا ہوگا اور ماں نے زبردستی کے ساتھ ان کے بستہ میں رکھ کر ان کے ساتھ کن کن چیزوں کا وعدہ کیا ہوگا۔بقول سراج فیصل ؎
کتابوں سے نکل کر تتلیاںغزلیں سناتی ہے
ٹفن رکھتی ہے میری ماں تو بستہ مسکراتا ہے
لیکن افسوس ،ان کے الدین کے فہم وادراک میں بھی یہ نہیں ہوگا کہ صرف چند لمحوں کے بعد بٹہ وارہ میں ان کے خوابوں ،ان کے گھروں اور ان کی زندگیوں کا بٹوراہ ہوگا۔ماں بیٹے سے ،باپ بیٹی سے ،بھائی بہن سے اور بیوی خاوند سے جدا ہوگی ۔سب سے بڑی اذیت ناک یہ خبر موصول ہوئی کہ اس سانحہ میں ایک ماں اپنے دو بچوں کے ساتھ اللہ کو پیاری ہوگئی۔ یہ وہ ماں ہے جس نے ان بچوںکو نو مہینے اپنے شکم میں دنیا کی تمام آفتوں سے دور رکھ کر انھیں ہر پل تحفط دیا۔ان کے پیدا ہونے کے بعد ان کو انگلی پکڑ کر چلنا سیکھایا اور انھیں تعلیم کے نور سے منور کر نے کی بھر پور کوشش بھی کی ۔ یہ ماں انھیں جہالت سے لڑنے کے لئے انھیں تعلیم کے میدان میں چھوڑنے کے لئے کشتی میں سوار ہوئی تھی اوریہ ماں بھی اپنے دو بچوں کے ساتھ ہی جہلم نے نگل لی۔ افسوس صدافسوس۔نہ ماں رہی،نہ ماں کے وہ خواب اور نہ وہ چھوٹے چھوٹے تارے۔اے جہلم !اگر کچھ رہا تو وہ صرف جدائی کا غم جو ان کے لواحقین کو اب جینے نہیں دے گا۔
ڈوبنے والوں میں کئی افراد شامل تھے لیکن ابھی تک تین افراد کی لاشیں نہیں مل پارہی ہیں۔خیالوں کی دنیا میں بٹہ وارہ کی المناک صدائیں گونج رہی ہیں۔ آس پاس کے لوگوں نے ڈوبنے والوں کو بچانے کی لاکھ کوشش کی لیکن پانی کی سطح بلندی پر فائز تھی اور پانی کا بہائو اس قدر تیز رفتاری سے بہہ رہا تھا کہ ڈوبنے والے نظروں سے پل بھر میں اوجھل ہو گئے ،جو چیخ و پکار اور ہاتھوں سے اشارہ کر رہے تھے کہ ہمیں جہلم کے منہ میں سے نکالو ۔ان میں سے ایک دو کو بچالیا گیا۔اس کے بعد مقامی اورغیر مقامی باشندوں اورتنظیموںنے بھی بچا ئوکاروائیوں میںشمولیت کی۔ جن میں پولیس ، ایس ڈی آر ایف، مارکوں اور دوسری بچا ئوٹیمیںشامل تھیں۔ابھی تک لاشوں کی تلاش جاری ہے۔بٹہ وارہ کے باشندوں کی کشتی جہلم میں ڈوبنے سے ایک ایسادل سوز سانحہ رونما ہو اجس کی تلافی ناممکن ہے۔
اے جہلم !ابھی بھی ہر طرف غم کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ یہ غم اور مصیبت صرف بٹہ وارہ والوں کا نہیں بلکہ ہر ایک باشعور کشمیری کا ہے۔ہر اس ذی حس فرد کا جو درد مند دل کا خیر خواہ ہے۔اے جہلم !آب ہماری آنکھیں دُھندلی ہوگئی ہیںاورروتے روتے ٓسوکھ گئی ہیں۔اے جہلم !آج ہم سب سوگوار ہیں۔ اے جہلم !تمہیں اللہ کا واسطہ ہم بے بسوں ،بے کسوں اور لاچاروں پر رحم فرما۔اے جہلم
آپ خود عینی خواہ ہیں کہ ہم نے ماضی میں کتنے ستم جھیلے ہیں۔ اے جہلم !اُن مائوں ،بہنوں ،بیٹوں اور والدین کے آنسوئوں کی لاج رکھ ۔انھیںاپنے عزیرواقارب کی لاشیں واپس دے ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
!باشندگان ،گنڈبل بٹہ وارہ
(رابطہ۔ 9103654553 )