نورِ عرفان اور تجلیات ِ ربّانی خدا کی حِکمت سب سے بڑا عطیہ ہے

ڈاکٹر عریف جامعی

مقدور نہیں اس کی تجلی کے بیاں کا
جوں شمع سراپا ہو اگر صرف زباں کا
دسویں جماعت کے اردو نصاب میں شامل محمد رفیع سودا کے اس شعر کی ہمارے مرحوم و مغفور استاد، پیر غلام احمد (نائیدکھے، سوناواری) نے کچھ اس طرح تشریح و توضیح کی تھی کہ ہمیں نہ صرف یہ شعر موقعے پر ہی ازبر ہوا تھا، بلکہ اس کا مرکزی مضمون بیان کرنے والے الفاظ یعنی ’’تجلی‘‘ اور ’’شمع‘‘ راقم کے قرطاس ذہن پر کچھ اس طرح نقش ہوئے کہ مٹائے نہ مٹ سکے اور لوح دل پر یہ الفاظ ایسے رقم ہوئے کہ کتاب زندگی کا ورق ورق انہی الفاظ کے نئے انداز اور نرالے اسلوب سے مرقع ہوتا رہا۔ علامہ اقبال کی ’’بچے کی دعا‘‘ (لب پہ آتی ہے، جسے ہم بچپن میں ’’لپے آتی‘‘ کہتے تھے) کے ذریعے شمع کی افادیت سے شناسائی ہوئی اور ’’پتنگے‘‘ (پروانے) کی شمع کے ساتھ دیوانہ وار اور والہانہ محبت کا ذرا اندازہ بھی ہوا۔ تاہم علامہ کی نظم ’’شمع اور شاعر‘‘ نے یہ احساس دلایا کہ ایک حساس طبیعت شخص کسی بھی صورت میں انفرادیت (انڈویژولزم) کے زعم میں کبھی مبتلا نہیں ہوسکتا، کیونکہ اس کے لئے قوم و ملت کی اتنی اہمیت ہوتی ہے کہ وہ ایثار (الٹروزم) کو اپنا شعار بنا لیتا ہے۔
لفظ ’’تجلی‘‘ علامہ کی شاعری کے ساتھ ساتھ شاہ ولی اللہ دہلوی اور ابن العربی کی تصنیفات میں کچھ اس طرح برتا گیا ہے کہ قاری کے سامنے نورکی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ نور کا سرچشمہ اور منبع صرف ایک ہے اور مخلوقات کا اس نور میں نہا اٹھنا اور پھر اس کو منعکس کرنا اس بات پر منحصر ہے کہ اس سرچشمے اور منبعے کے ساتھ ان کے تعلق کی کیا نوعیت ہے۔ امام ربانی شیخ احمد سرہندی نے انسان کے روحانی ترفع کو حقیقت الحقائق کے نور سے مستنیر ہونے کی استطاعت پر منحصر قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صفات باری تعالیٰ کے پرتو سے ہی بندہ اس نور سے اپنی صلاحیت کے مطابق حصہ وصول کرتا ہے۔ اس موضوع کو قرآن میں اگرچہ کئی ایک مقامات پر واضح کیا گیا ہے، تاہم سورہ الفرقان کے آخری رکوع میں رحمٰن کے بندوں کی جو توصیف کی گئی ہے اس سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ خدا کی صفت رحمت کا ظہور بندوں کو کس طرح رذائل سے پاک کرکے فضائل کا شاہکار بنادیتا ہے۔
دراصل نور دنیا میں انسان کی راہیں اس طرح روشن کرتا ہے کہ وہ زندگی کے پرپیچ راستوں میں اپنے قدم بلا خوف و خطر اٹھا پاتا ہے۔ یہ ایک عام تجربہ ہے کہ آنکھوں میں دیکھنے کی طبعی صلاحیت یعنی بصارت سے ہم چیزوں کا ظاہر دیکھ پاتے ہیں، جبکہ ہماری شخصیت میں پنہاں بصیرت سے ہم چیزوں کا باطن یعنی چیزوں کی اصل حقیقت کا اندازہ لگاپاتے ہیں۔ کسی شخص کے اندر یہ صلاحیت تائید خداوندی کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ تاہم اس صلاحیت کا کسی شخص کے پاس پایا جانا ،اس پر رب تعالی کا بہت بڑا انعام ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صلاحیت ہدایت کے ساتھ منسلک ہے، اس لئے اس کے حصول کے لئے ’’صراط مستقیم‘‘پر ثابت قدم رہنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بندہ رب کائنات سے سیدھے راستے کی دعا کرتا ہے تو اس کا سینہ راہ راست کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’سو اللہ جس کو ہدایت دینا چاہے، اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔‘‘(الانعام، ۱۲۵) شرح صدر ہوتے ہی ایسے شخص کے فہم و فکر اور عقل و شعور کی گرہیں کھلنے لگتی ہیں اور یہ راہ راست پر رواں دواں ہوجاتا ہے۔ ایسا شخص مسائل اور مشکلات کے انبوہ کثیر میں خلق خدا کا نجات دہندہ بن جاتا ہے۔ اگرچہ عام نگاہیں اس کی موجودگی کا احساس نہیں کرپاتیں، لیکن محفلوں کی رونقیں اور راہوں کی چہل پہل ان ہی کے دم سے برقرار رہتی ہیں۔
غرض حق کی معرفت کے ساتھ ساتھ راہ حق پر ثبات اور دوام کے لئے حق شناس، حق گو اور حق پرست انسان کو نور حق کی کیفیت ہر دم درکار ہوتی ہے۔ اس کی چشم حق آشنا کو باطل کی چمک دمک خیرہ کرپاتی ہے اور نہ ہی تجلیات ربانی سے پروان چڑھنے والے اس کے فکر و نظر کو باطل کی چکاچوند متاثر کرسکتی ہے۔ تاہم اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہوا و ہوس کے منہ زور گھوڑے کے ساتھ ساتھ شیطان ہر وقت اس کی تاک میں رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہدایت پانے کے بعد راہ ہدایت پر استقامت کے لئے وہ ہر آن حق تعالی کے سامنے دست بدعا رہتا ہے۔ قرآن نے ایسے انسان کی اس ادا کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کردے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما۔ ‘‘ (آل عمران، ۸) یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انسانی شخصیت کا راہ حق پر قائم رہنا ’’دل کی سیدھ‘‘ سے ہی ممکن ہے، لیکن دل پر گاہے گاہے انسانی جذبات اور میلانات کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً انسان کے قدم راہ حق سے ڈگمگانے کا ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ احساس خمسہ کے ذریعے انسان پر اثر انداز ہونے والے مشاہدات اور تجربات اس کو راہ حق سے بے راہ کرسکتے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ عقل و دل ان تاثرات کی چھان پھٹک کرتے رہتے ہیں، لیکن اگر نظر ہی ان تجربات کی صحت کا تعین کرسکے تو انسان کو ٹھوکر کھائے بغیر ہی اپنا سفر حیات طے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک جامع دعا کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے، جس کا ترجمہ ہے: ’’اے اللہ! ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا اور اس پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا اور اس سے بچنے کی توفیق عطا کر، اور ہمیں چیزوں کو ویسا دکھا جیسا کہ وہ ہیں، اور ہمارا خاتمہ بحیثیت مسلمان کرنا۔‘‘(تفسیر ابن کثیر و قوت القلوب از ابو طالب مکی)
اس طرح حق کا متلاشی ابدی نور کے حصول کے لئے دنیا میں بھی تجلیات الٰہی سے مستنیر راہوں کا مسافر بنا رہتا ہے۔ واضح رہے کہ نور سے صرف راہیں روشن نہیں ہوتیں بلکہ اسی سے ہمت شکن مشکلات حل ہوتی ہیں، اذہان کی تاریکی چھٹ جاتی ہے اور دلوں کا زنگ دور ہوجاتا ہے۔ نور ہی کی بدولت اہل حق پر اہل باطل کی طرف سے توڑے جانے والے مظالم کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔ نور ہی وہ واسطہ (میڈیم) ہے جس سے حق تعالی کے چنندہ بندے ایسے حقائق کا مشاہدہ کرتے ہیں جو عام انسان کے لئے غیر مرئی ہوتے ہیں۔ اصحاب کہف کا قوم و وطن کو خیرباد کہہ کر غار کا رخ کرنا ہو یا اصحاب بدر کا ٹڈی دل لشکر سے دو دو ہاتھ کرنا، اولوالعزمی کی ایسی چوٹیاں بس اسی تیقن سے سر کی جاتی ہیں جس کی بنیاد نور عرفان کی عروہ الوثقی (مضبوط سہارے) پر ہوتی ہے۔ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور کی انہی راہوں کے سفیر بھی تھے اور داعی بھی۔ کتنا روح پرور تھا وہ منظر جب آپ ؐ طائف کی پر خطر راہوں پر چلتے چلتے لہولہان ہونے کے باوجود اپنے مہربان خدا سے اس کے نور کے حوالے کے ساتھ اس طرح دعا فرماتے ہیں: ’’اے خدا! میں تیرے ہی حضور میں اپنی ضعف قوت اور لاچاری اور لوگوں کی ایذا دہی کی شکایت کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین! تو ہی کمزوروں اور بیکسوں کا نگہبان اور محافظ ہے اور تو ہی میرا پروردگار ہے۔ تو مجھ کو کس کے سپرد کررہا ہے۔ کیا ایسے شخص کے جو مجھ سے ترش روی سے پیش آئے یا ایسے دشمن کے جس کو تو نے مجھ پر مسلط کیا ہو۔ اگر تیرا غضب مجھ پر نہیں ہے تو مجھ کو کوئی پروا نہیں۔ تیری عافیت بڑی وسیع ہے۔ میں تیرے اس نور کے ساتھ جس سے تو نے ظلمات کو روشن کیا ہے اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تو اپنا غضب و غصہ مجھ پر نازل فرمائے۔ نیکی اور بدی کی قوت نہیں مگر تیری توفیق کے ساتھ۔‘‘
ظاہر ہے کہ مخلصین کا راہ حق پر سفر اسی چاہت بلکہ رغبت سے شروع ہوتا ہے جو انہیں اپنی فطرت کو صحیح و سالم رکھنے کی وجہ سے اس راہ (جسے سواء السبیل بھی کہتے ہیں) کے ساتھ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنی فطرت کو مسخ کرتا ہے، اس کے لئے اس راہ پر چلنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا ایک غیر ترتیب یافتہ شخص کو کسی چوٹی کو سر کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راہ حق کی طرف راہنمائی ملتے ہی مخلص انسان کے لئے ایک نور پیدا کیا جاتا ہے جو نہ صرف اس کی راہوں کو منور کرتا ہے بلکہ اس کو پیش آنے والی ہر مشکل کو آسان کرتا رہتا ہے۔ اس کی وضاحت قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے: ’’۔۔۔۔۔وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے، پس وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک نور پر ہے۔‘‘ (الزمر، ۲۲) اس نور کی بدولت اس کے لئے حق پر ڈٹ جانا اور باطل سے کنارہ کش رہنا بالکل آسان ہوجاتا ہے۔ غرض نہ صرف اس کا قول و فعل بلکہ اس کی عقل و فکر بھی اسی نور سے مستنیر ہوتی ہے۔ اس طرح اس کو ایک ایسا بلند مقام حاصل ہوتا ہے جس سے اس کا سراپا نور کا ایک استعارہ بن جاتا ہے۔ قرآن کے الفاظ میں: ’’ایسا شخص جو پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اس کو زندہ کردیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کو لیے ہوئے لوگوں میں چلتا پھرتا ہے۔ کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں سے نکل ہی نہیں پاتا۔‘‘ (الانعام، ۱۲۲)
بہرحال اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر نور افشانی کا یہ اہتمام ابتداء آفرینش سے کردیا تھا۔ اگرچہ انسان کی فطرت سلیم اور اس کا قلب سلیم اس نور کو تلاش کرنے کی سعی و جہد کرتے رہتے لیکن خدا نے انسان پر یہ احسان کیا کہ پیغمبران کرام ؑ کے ساتھ کتابیں بھیج کر اس نور سے فیضیاب ہونا انسان کے لئے بہت آسان بنادیا۔ یہ نور تورات (المائدہ، ۴۴) کا بھی خاصہ رہا ہے اور اسی طرح انجیل (المائدہ، ۴۶) کا بھی۔ تاہم قرآن کو سراسر نور (المائدہ، ۱۵) قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ الکتاب کے نور کو بندگان خدا کے لئے قابل حصول بنانے کے لئے تمام پیغمبران کرامؑ نے جانفشانی سے کام کیا اور اس کام کی تکمیل رسالتمآبؐ کے ذریعے کی گئی۔ چونکہ آپ ؐ نے اس کام کا اتمام کیا، اس لئے آپ ؐ کو ربّ ِ کائنات نے’’سراج منیر‘‘ کا لقب عنایت فرمایا۔ (الاحزاب، ۴۶) اور آپؐ اس طرح نور کے لئے اللہ تعالی سے دعا فرماتے تھے: ’’اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما اور میری بصارت میں نور پیدا فرما اور میری سماعت میں نور پیدا فرما اور میری دائیں جانب نور پیدا فرما اور میری بائیں جانب نور پیدا فرما اور میرے اوپر نور پیدا فرما اور میرے نیچے نور پیدا فرما اور میرے آگے نور پیدا فرما اور میرے پیچھے نور پیدا فرما۔ اے اللہ! مجھے نور عطا فرما۔‘‘ (مسلم، ابن عباس)
(رابطہ 9858471965)
[email protected]