نظمیں

عالمِ یاس میں
گالوں پہ رِس رہی ہے اشکوں کی باڑ جانم
گل ہائے سُرخ رُو پہ گوہر نُما یہ شبنم
ہوتا تھا جِن لبوں یہ رقصاں کبھی تبسم
رقصاں اِن ہی پہ کیوں کر آبیدہ سا تبسم
اطوارِ گفتگو کا ٹوٹا ہوا یہ دم خم
بارِ گراں ہے مجھ پر صورت تیری یہ گُم سُم
بزمِ طرب ہے، واللہ بزمِ نوحہ نہیں ہے
مانو تم اب بھی لی اللہ کچھ بھی ہوا نہیں ہے
ساعت شباب کی جب آہ و ُغاں میں گُذرے
ایسی حیات سے پھر بہتر ہے لاکھ مرنا
توڑونہ اس طرح پھر سوچوں کے آئینوں کو
مقصود جب ہے ان میں انمول رنگ بھرنا
خالق نے ہر بشر کو عقلِ سلیم دی ہے
ہے فرض اِس پہ عائد اُس کا بھی شُکر کرنا
اُٹھتا ہے تیرا کیونکر دستِ دُعا نہیں ہے
مانو ابھی تم جانم کچھ بھی نہیں ہوا ہے
جیون کے گُل کدے میں آئو بہار لائیں
قلب و جگر کا پھر سے واپس قرار لائیں
کون و مکاں میں اپنے فصلِ بہار لائیں
گرداب سے نکل کر طوفاں سے پار آئیں
ڈولی تمہاری گھر پہ میرے کہار لائیں
عرشِ بریں سے جیسے اختر اُتار لائیں
عُشاق ؔیہ کرشمہ کہ اب تک ہوانہیں ہے
دُنیا میں اِس سے بڑھکر کچھ بھی ہوا نہیں ہے
عُشاق ؔکشتواڑی
کشتواڑ، جموں
 موبائل نمبر؛9697524469
پت جھڑ کی دستک۔۔۔!
زندگی کھلا صحیفہ ہے
ورق ورق پہ لفظوں کے پرندے چہچہا رہے ہیں
نقط نقط ستاروں کی طرح ٹمٹما رہا ہے
کہیں عنوان کا چاند نظر آئے تو
کہیں سورج کی کرن لوحِ شبنم پہ نیم دراز
صفحے صفحے پہ اقتباسات بکھرے پڑے ہیں
ہلکی ہلکی دھول کی چادر اوڑھے
دھندلی نظر جنہیں چھوتے ہوئے ٹٹول رہی ہے
قرطاسِ حیات گزرتے لمحات سے بھرا پڑا ہے
جنہیں پڑھنے کی اب سکت نہیں
بس یادوں کا تھکا ہارا سہارا ہی باقی ہے
سبز، گلابی، سنہرا یا زرد
سبھی رنگوں کی کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں
جنہیں اب جگہ جگہ دیمک چاٹ رہی ہے
بوسیدہ اوراق ایک دوسرے سے چپک رہے ہیں
گلے مل کے چیخیں مار رہے ہیں
جیسے کسی اپنے کی وداعی ہے
ماتم کی دھن پہ بین کر رہے ہیں
چھن چھن کے گر رہے ہیں
ٹوٹتے اشکوں کی طرح
مہاجر پرندے لوٹنے کی تیاری میں،
خالی ہاتھ لئے
بنجارے خیمےاُکھاڑ رہے ہیں
نئے پڑائو پہ جانے کی تیاری میں
اگلا پڑائو، موسموں کے پار ہے
زرد ہوائیں ورق ورق اُڑانے کی تاک میں ہیں
سارے رنگ وقت کی دھول میں کھو جائیں گے
موسموں کا آخری صفحہ آنکھوں سے اُتر رہا ہے
پت جھڑ کی دستک صاف سنائی دے رہی ہے۔۔۔!!!
علی شیداؔ
 نجدون نیپورہ اسلام آباد، اننت ناگ
موبائل  نمبر؛9419045087
خواب 
انتظار میں بیٹھی ہوں
 کب سے؟
 شاید نظر وہ آئے
پھر کہیں سے۔
  ایک دھندلی سی یاد،
  اک بھولا سا خیال
  پوچھا تھا میں نے
 اس اجنبی سے۔
 اس یاد
 اس خیال کا پتہ
بتایا بھی تو کیا؟
 اس کا راستہ
 دُور اک دریا کے کنارے پر۔
 کچھ ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں
 ان میں چمک ہے
  خواب پلكوں كی
شاید وہی تو نہیں،
 دوڑتی گئی میں
 نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ
بس
دوڑتی گئی میں
  ان بکھرے ٹکڑوں کو
 سمیٹنے
  اور جوڑنے
  اور پھر پہنچی وہاں
 تو دیکھا؟
 وہ کسی اور کی آنکھوں
 اور پلکوں پر جچ گیا تھا
 وہ میرا عزیز
 خواب!
ساریہ سکینہ
حضرتبل، سرینگر