نظمیں

یہ بحرِ آزمائش یُوں طلاطم خیز تھا لیکن

مکیں ہندؔ کے مُفکریں نے وہ آخر کار کرڈالا
رُکاوٹ کی حصاروں کو ہٹا کر تار کر ڈالا
یہ بحرِ آزمائش یُوں طلاطم خیز تھا لیکن
مسلسل جہدِ کا مل سے اِسے بھی پار کرڈالا
بشر کی سوچِ مثبت نے زمیں آباد کر ڈالی
یہ تھی سنگلا خ پہلے اب اسے گلزار کر ڈالا
غریقِ عشق تھے عاشق تصور چاند کا لیکر
حقیقت میں اِسے اب تو انہوں نے یار کر ڈالا
کرے کاوش کوئی دل سے نہیں یہ رائیگاں ہوتی
رُخِ نادیدہ کا بوسہ بشر نے چار کر ڈالا
یہ رسمِ عاشقی اکثر زمیں پہ سب نبھاتے تھے
قریبِ چاند جاکر اب اِسے بیدار کر ڈالا
بصد انداز نہروؔ کے تصور کا کُفر ٹوٹا
نصیبوں میں تھا مودیؔ کے اِسے شاہکار کر ڈالا
وقت کی بازگشت اکثر وقت پہ رنگ لاتی ہے
مرے ہندوستان نے آخر فلک پہ وار کر ڈالا
ہے دیکھا جگ کی آنکھوں نے یہ سارا دِلرُبا منظر
اِسی منظر نے ہندیوں کا قلب یک تار کر ڈالا
یہ کشتِ رامؔ و چشیؔ ہے مکیں اقوام کا لیکن
اس کارِ گراں کو سب نے لمحہ یادگار کر ڈالا

عشاق ؔکشتواڑی
کشتواڑ،موبائل نمبر؛9697524469

 

نالۂ محبت
محبت کا نالہ و فریاد ہوں میں
حسد و بغض سے آزاد ہوں میں
میرا بھی اس چمن میں ہے آشیانہ
جو غم سے نہ ٹوٹے وہ فولاد ہوں میں
توڑ دے اگر کوئی کلی اس چمن کی
روتا ہوں اس پہ کہ فرہاد ہوں میں
چمن پنکھ میرا میں پرواز اس کی
ٹکی ہے نظر اس پر کہ صیاد ہوں میں
میرے ہم وطن بھی ہیں نگراں چمن کے
جو اٹھائے نگاہ تو ناشاد ہوں میں
خوشحالی پہ اس کی فدا ہے میرا دل
پھولوں کی خوشبو سے شاد ہوں میں
صدا چاہتا ہوں شادمانی چمن کی
چمن میری زینت کہ دلشاد ہوں میں
یہ آواز تیرتی ہے کوہ و بیاباں
کوئی ہاتھ بڑھائے کہ امداد ہوں میں
رہے سرسبز و شاداب میرا چمن یہ
حق سمجھتا ہوں چمن میں آباد ہوں میں
اب سہہ نہ پاؤں یہ حالت اضطرابی
ہوا چمن ویران تو برباد ہوں میں
آؤ مل کے توڑیں یہ دیوارِ نفرت
فقط محبت کا نالہ اتحاد ہوں میں
کون دیکھتا ہے میرے جگر کے آنسو
ٹوٹے دلوں کی تعداد ہوں میں
ایک شجرئہ چمن ثمردار ہوں میں
میاں کیوں سمجھتے ہو اُفتاد ہوں میں
یہاں پیر و جوان چمن کی بقا ہے
دلوں میں دھڑکتا مواد ہوں میں
یہ میرا ولولہ، امنگ اور محبت
ہے ادھوری ابھی کہ انفراد ہوں میں
جو بدلے ہیں موسم تو بدلا چمن بھی
نہ بدلے کبھی جو وہ باد ہوں میں
میرے اہل چمن گر آزمائیں شبنمؔ
تو وفا کا بھر پور اعتماد ہوں میں

شبنمؔ شاہجہان ڈینگ
نیل بانہال ضلع رام بن، جموں

یتیم بچی کا خط
اپنے مرحوم باپ کے نام
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ
غموں کا وا ہُوا دفتر کہیں سے لوٹ کے آؤ
میرے پیارے میرے ابو شفقت خون روتی ہے
اداسی کونے کونے میں محبت خون روتی ہے
کہاں کھوئے سخی میرے سخاوت خون روتی ہے
گھروندا محو ماتم ہے مشقت خون روتی ہے

لگی پھر چوٹ ہے دل پر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ

کتاب ِ دل کے پنوں پر بچھڑنے کی کہانی ہے
سبھی الفاظ خونی رنگ کہ اشکوں کی روانی ہے
درج تحریر کاغذ پر یہ دنیا ہائے فانی ہے
مسافر زندگی اپنی ازل سے آنی جانی ہے

جدائی کا چلے خنجر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ

تیری مسکان میں ابو جہاں سارا سمایا تھا
کہ گویا تپتے صحرا میں شجر کا ایک سایہ تھا
گُزارے زندگی کیسے ہمیں ہر دم سِکھایا تھا
لڑیں طوفان سے کیسے ہمیں رستہ دکھایا تھا

رکھو پھر ہاتھ ہاں سر پر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ

ابھی بے حد ضرورت تھی بچھڑنا کیا ضروری تھا
میرے خوابوں کی دنیا کا اُجڑنا کیا ضروری تھا
لئے اک داغ فُرقت کا تڑپنا کیا ضروری تھا
چمن کے اے گلُِ تازہ سِمٹنا کیا ضروری تھا

میرا آنگن ہُوا بنجر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ

زمانے کے حوادث سے دعا بن کے بچا لینا
گِروں گر ٹھوکریں کھا کر میرے ابو اٹھا لینا
میرے خوابوں میں آجانا گلے مجھ کو لگا لینا
بہت نادان ہے بیٹی مجھے جینا سِکھا دینا

ابھی تنہا ہوں چشمِ تر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ

تیرے کمرے کی کھڑِکی پہ کوئی بلبل پریشاں ہے
کدھر مالی چُھپا اپنا بڑا غمگین و حیراں ہے
اندھیرا کیسا چھایا ہے کہاں ماہِ درخشاں ہے
کرب کی ٹیس سینے میں میری پلکوں میں طوفاں ہے

خموشی میں ہے ڈوبا گھر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ

جدائی کے سبھی لمحے ٹلیں گے پھر سے جنت میں
سنو یہ پھول خوشیوں کے کھلیں گے پھر سے جنت میں
بُجھے یہ دیپ قربت کے جلیں گے پھر سے جنت میں
یقین مجھ کو خدا پر ہے ملیں گے پھر سے جنت میں

رکھوں سینے پہ پھر سے سر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ

لُٹا میرا جہاں سارا مگر ہے رہنما زینبؑ
چھپا بادل میں اِک تارا مگر ہے آسرا زینبؑ
لگا ہے روگ فرقت کا مگر اپنی شفا زینبؑ
صبر کا جام ہم کو بھی کریں گی اَب عطا زینبؑ

کرے سایہ ہمیں چادر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ

میرے ابو میرے یاور کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ ۔۔۔
غموں کا وا ہوا دفتر کہیں سے لوٹ کے آؤ
اکیلی ہے بہت دختر کہیں سے لوٹ کے آؤ ۔۔۔

فلک ریاض
حسینی کالونی چھترگام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109