نظمیں

زندگی
میں نے زندگی کو تراشا ہے
لوگ کہتے تھے یہ تماشا ہے
سہمی سہمی سی یہ چلتی رہی
کبھی گرتی تو کبھی سنبھلتی رہی
کبھی بے وفا تو کبھی با وفا
اُلٹی سیدھی یہ باتیں کرتی رہی
آنگن میں یہ میرے مچلتی رہی
کبھی دکھائے اپنے سرخاب سے پر
کبھی دکھائے اپنی آنکھوں کے ڈر
رکھا پھر بھی اسے اپنے گھر
کونے میں بیٹھی یہ روتی رہی
وقتِ رخصت میں نے جھنجھوڑا اسے
بگھوکے اپنا دامن نچوڑا اسے
مگر ٹس سے مس نہ ہوئی
گوشہ تنہائی میں بیٹھی ہنستی رہی

ڈی ایس بالی دامن
سینئرایڈوکیٹ ،چنڈی گڑھ
موبائل نمبر؛9878828666

اندھیرا
اس بھیانک رات کا کوئی اختتام نہیں
یہ وہ شہر ہے جس کا کوئی نام نہیں
یہاں ہر طرف موت ہے اور زندگی نایاب
اس نگری میں کسی کا کام نہیں
یہاں دہشت ہی دہشت راج کرتی ہے
ساری شربتیں حرام مگر شراب کا جام نہیں
جنگلی جانوروں کا مسکن ہے یہ نگری
نوچ ڈالے جو انسانوں کو وہ بدنام نہیں
یہاں ہر روز بدن تندور میں تپائے جاتے ہیں
یہاں زخم اتنے رستے ہیں کہ خام نہیں
سانپوں کی بلوں میں ہاتھ ڈالنا ایک ہوا چلی ہے
ڈسنے سے یہاں کوئی کہرام نہیں
رات کے اندھیروں میں مسکن ڈھائے جاتے ہیں
آشیانے ہو یا عزت، یہاں کوئی احترام نہیں
یہاں جینا بہت محال ہے مصطفیٰؔ
ہر چیز خطرے میں ہے، صرف در و بام نہیں

سید مصطفیٰ احمد
حاجی باغ، بڈگام
موبائل نمبر؛7006031540