نظمیں

ڈائری کا ایک صفحہ

ہوائیں خوشبو دار کبھی تھیں
اب کے ہوگئی ہیں زہریلی ،
سیاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کثیف

جہاں پرندے کو چونچ مارنی تھی
وہاں وہ اپنے پیر مار رہا ہے
جہاں اُسے قے کرنی تھی
وہاں وہ چاٹ رہا ہے
دُھند اور اگیان
دلوں میں ، آنکھوں میں
لہو میں تیر رہا ہے

ساعتیں خوف کی
موت کی
سروں پر ناچتے چیل اور گِدھوں کی
اِک سیاہ آسیب کی زَد میں انسان
جس نے کہا تھا کبھی
میں لے آئوں گا تمہارے لئے
ریس کا سفید حسین گھوڑا
دعائیں کرنا۔۔۔۔۔۔
( کہہ کر وہ چلا گیا )

ہم نے دعائیں تو کیں
رات دن۔۔۔۔لمحہ لمحہ
پر نہیں کر سکے چھت میں کوئی سوراخ
وہ لوٹ کے تو آیا
مگر خالی ہاتھ۔۔۔۔۔۔!

مشتاق مہدی
ملہ باغ،سرینگر،9419072053

ابنِ آدم بے خبر

ہے تمہارے پاس سُن لے ذر اگر
پھر تیری ہر بات ہوگی با اَثر
لاکھ ہوں موجود تجھ میں خوبیاں
کچھ نہیں ہے پاس نہ ہو ذر اگر
انسانیت کی اب نہیں قیمت کوئی
جیب بھاری ہے اگر تو ہے قدر
پاس تیرے ہے اگر دولت تو سُن
عیب تیرا ہر بنے گا پھر ہنر
ایک بیٹا اٌس کا ہے چند ہیں مکاں
بن سکا نہ مجھ سے لیکن ایک گھر
ہو کوئی ذر دار یا پھر بے نوا
ہے ٹھکانا ہرکسی کا بس قبر
ہو مبارک عیش و عشرت سب تمہیں
راس ہم کو آئی ہے غربت مگر
ہے خوشی کیا نام، کس کا ہے سکوں
ڈھونڈتا پھرتا ہے اُس کو ہر بشر
ہو میسر سب کو راحت لازم نہیں
جیسی تیسی سب کی ہوتی ہے بَسر
چند دن کے ہیں یہاں مہمان سب
ابنِ آدم کس قدر ہے بے خبر
بِک رہا ہے کس طرح انساں یہاں
دیکھ کے جلتا ہے یہ میرا جگر
آخری منزل ملے گی کس کو کب
کون جانے کس کا ہے کتنا سفر
حرص اور لالچ نے ثاقبؔ دیکھ لے
کس قدر ہم کو کیا ہے دربدر

ثاقب فہیم
شاداب، کریوہ شوپیان، کشمیر،موبائل نمبر؛8899134944