نظمیں

جگنو کے نام
رب جو چاہے تو چھین لیتا ہے سہارے سارے
اُس کے حکم سے چلتے ہیں کام ہمارے سارے
انسان بے بس ہے کر بھی سکتا ہے کیا؟
وقت دکھا دیتا ہے ہر طرح کے نظارے سارے
وہ ایک جگنو جس کے دم سے تھی روشنی گھر میں
وہ بُجھ گیا تو ہوگئے ہیں بے چارے سارے
آس رہی نہ کوئی نہ ہوش ہی بچا ہے
منظور پھر بھی ہیں قدرت کے اشارے سارے
مسکراہٹ چہرے پہ سجے گی نہ ہونگے قہقہے
خوشی کے بند ہوئے انکے ادارے سارے
دستور دُنیا کا ہے یہ تو روز اول سے ہی
ایک ایک کرکے چلے ہیں سحرؔ پیارے سارے

ثمینہ سحرؔ مراز
بڈھون، راجوری

 

قطعات
لُطف آتا ہے جب کہیں لڑائی ہو
آج میں، کل تم تماشائی ہو
قُربِ الٰہی کی تم بات کرتے ہو کیا؟
جب پڑوس تک نہ تمہاری رسائی ہو

دل کے گِرد میرے کوئی حالہ کردے
میری محرومیوں کا کچھ تو اِزالہ کر دے
یہ تیرگی دل کی اب کم نہ ہو شاید !
آ ! میری زندگی میں کوئی اُجالا کر دے

ہو ممکن جہاں تک میری نظر جائے گی
زمین و آسمان چیر کے گُزر جائے گی
میرے سوچنے کی کوئی حد مقرر تو نہیں
تیرے خیالوں سے آگے اور کدھر جائے گی

میں اپنے خوابوں کے تعاقب میں دُور نکل آیا ہوں
تجھ سے تیری بزم سے بہت مجبور نکل آیا ہوں
رونقِ بزمِ طرب میں اب میرا دل کہاں لگتا ہے
باغِ جنت سے میں تو خلافِ دستور نکل آیا ہوں

خوشنویس میر مشتاق
ایسو، اچھہ بل اننت ناگ،کشمیر
[email protected]