نظمیں

بُھول جاتے ہیں بشر کا جب سبھی جہانِ عزیز

قلبِ انساں ہے اُمنگوں کی ہی اِک کانِ عزیز
فطرتاً ہوتے ہیں اسکو اپنے بیگانے عزیز
ایک دِن آتا ہے ایسا گام ہائے دل شکن
جانبِ ملکِ عدم ہوتی رواں جانِ عزیز
بعدِ مُردن کون پھر رکھتا کسی کو یاد دوست
چند روزہ رہتی ہے لب پہ رواں تانِ عزیز
ختم ہوتے ہیں جہانِ زیست کے جب مرحلے
چھوڑتا ہے خاکِ راہ پہ راہ رو نشانِ عزیز
نسلِ نو بھی ہوگی باور کار ہائے سلف سے
بعدِ رخصت ہوتا ہے اِک یہی اِمکانِ عزیز
چھیڑتی ہے بربطِ اُمید لیکن تانِ غم
بُھول جاتے ہیں بشر کا جب سبھی جہانِ عزیز
تاجِ ہستی خود بخود ہوتا ہے اِک دن تہۂ خاک
ماند پڑتی صبح دم ہے جیسے کہکشانِ عزیز
زندگی مُطلق نہیں عُشاق ؔ ہے جنسِ دوام
فکر و دفن کی یہ مگر جاوید ہے تانِ عزیز

جگدیش راج ، عُشاق کشتواڑی
صدر انجمن ترقی اردو (ہند) شاخ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469

پیارے بچو


پیارے بچو بات یہ مانو
حق کو جانو حق پہچانو
جب بھی بولو اچھا بولو
سچ ہی بولو جب منہ کھولو
سچ کے پیرو کار بنو تم
جھوٹ سے بس انکار کرو تم
تم ایسی محنت کر لینا
نام ستاروں میں لکھ دینا
قدر بڑوں کی کرتے رہنا
غُصہ ان کا سہتے رہنا
ڈانٹ ہے ان کی رحمت تم پر
ان کا سایہ نعمت تم پر
بچپن سے جب تم نکلو گے
خوب جواں جب ہو جاؤ گے
ماں کی تم لاٹھی بن جانا
باپ کے تم ساتھی بن جانا
تم غافل ہرگز نہ رہنا
یاد خدا کو کرتے رہنا
پیار کے ہر سُو دیپ جلانا
نفرت کو تم جڑ سے مٹانا

سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد
[email protected]

بے باک جینے والے..!

بے باک جینے والے کس اور چل رہے ہیں..؟
محفل میں آج کیوں کر ساغر اُچھل رہے ہیں..!
مثلِ چراغ دانش کچھ خواب ہیں ہمارے.!
جن کی تپِش میں جانے ہم کب سے جل رہے ہیں..!
عمرِ رواں کا کوئی مقصد ہی طے نہیں ہے.!
بے کار ہی ہمارے دن رات ڈھل رہے ہیں..!
ساقی بتا ہمیں بھی مے کونسی ہے جس کو.!
بہکے ہوئے شرابی پی کر سنبھل رہے ہیں..!
گذرے ہوئے سمے سے بھٹکالے ذہن اپنا.!
ہم مَشغلے نہ جانے کتنے بدل رہے ہیں..!
شاعر صحافی چپ ہیں واعظ خطیب چپ ہیں.!
فتوے بھی مَصلِحت کے سانچے میں ڈھل رہے ہیں..!
ان کے لبوں پہ مسکاں سجتی رہی تھی تب تک.!
جب تک بھی وہ ہماری پڑھتے غزل رہے ہیں..!
کچھ روز ہی ہوئے ہیں ان سے ملے ہوئے پر.!
وقتِ جدائی آنسو آنکھوں سے ڈھل رہے ہیں..!
ماں کی دعائیں دانشؔ گھیرے ہوئے ہیں ورنہ.!
دشمن بدل بدل کر ترکیبیں چل رہے ہیں..!

شیخ دانش عاصی
اورنگ آبادی
[email protected]

طرحی غزل
اس نے محفل میں فقط گیت ہی گانے مانگے
جو خوشی دے سکے کچھ ایسے ترانے مانگے

ہم نے دولت نہ ہی شہرت کے خزانے مانگے
اپنی عزت کے لئے اونچے ٹھکانے مانگے

دل لگانے کا طریقہ انہیں معلوم نہیں
ہم سے گرُ عشق و محبت کا دوانے مانگے

وہ محبت نہیں مل پائی کبھی بھی تجھ سے
” قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے”

اے خدا لے لے جوانی مری بچپن دے دے
میں نے گزرے ہوئے دن پھر وہ سہانے مانگے

ہم کو دولت کی فراوانی نہیں ہے بھاتی
اپنے اللہ سے بس چند ہی دانے مانگے

تاکہ شامل کرے وہ اپنے رسالے میں ثمرؔ
اک ایڈیٹر نے مجھے چند فسانے مانگے

سمیع احمد ثمرؔ
سارن بہار
موبائل نمبر؛ 7488820892