نظمیں

کس رات عدو ئے جاں  کے ستم یاد نہیں آئے

باغِ حیات میں تُند کبھی باد نہیں آئے
آتش مزاج آندھیوں کی ناد نہیں آئے
کردے نظامِ زیست کا جو سلسلہ برہم
مخلوق پہ ایسی کبھی افتاد نہیں آئے
چلنے لگی ہے آجکل پُرسوز سیاست
مظلوم لے کے درپہ کوئی فریاد نہیں آئے
اِک طُرفہ تماشا ہے یہ جنونِ قیادت
حاکم کے سوا نظر کوئی دِلشاد نہیں آئے
کٹتا ہے دِن مُشکلناً خوف و حراس میں
کس رات عدوئے جاں کے ستم یاد نہیں آئے
فتنہ فساد خُوب ہو مذہب کے نام پر
بستی میں نظر سکوں سے کوئی آباد نہیں آئے
اے شیخِ حرم اپنا اب دامن تُو بچا لے
لب پہ تیرے لفظ کہیں جہاد نہیں آئے
آتے ہیں مرے گھر پہ آج یارانِ ظرافت
دورانِ علالت ہم اُنہیں یاد نہیں آئے
عُشاقؔ زباں کو اپنی اب لگام دو ورنہ
سرپہ کوئی پھر عُود تیرے اُفتار نہیں آئے

عشاق کشتواڑی
کشتواڑ، حال جموں،موبائل نمبر؛9697524469

کتاب
ہر فرد کی ضیاء کتاب ہے
یہ ہی اسکو سکھاتی آداب ہے
ہر فرد کی یہی روشنی ہے
ہر اک کا یہی مہتاب ہے۔
پڑھے جو اسکو جی جان سے
وہ ہی جگ میں ہوتا کامیاب ہے
جس کی زیست میں یہ نہیں
اس کی زندگی کہاں شاداب ہے
قادری ؔکو اس پہ سد ا ناز ہے
یہ اُسکی زندگی کا مہکتا گلاب ہے

فاروق قادری احمد
کوٹی ڈوڈہ
نیو وے کمپیوٹرس فرید آباد ڈوڈہ

آدمی
ہو گیا آدمی سے جدا آدمی
اور حق سے بھی نا آشنا آدمی
عدل انصاف کو چھوڑ کر کس قدر
ظلم کے راستے پر چلا آدمی
ہر کسی رنگ میں آدمی ہے یہاں
کوئی ہے نیک کوئی بُرا آدمی
سچ کا داعی بنا ہے فقط جھوٹ سے
نیک دِکھتا ہے پر ہے بُرا آدمی
رشتے بیکار ہیں آدمی کے لئے
ہو گیا آج کل بے وفا آدمی
آدمیت سے ہے آدمی بے خبر
کھو چکا ہے یہاں مرتبہ آدمی
نفرتیں دوریاں اس قدر بڑھ گئیں
آدمی سے رکھے فاصلہ آدمی
گیان اور دھیان کو بھول کر اے نعیمؔ
کیسے دنیا میں گُم ہوگیا آدمی

محمد نعیم خان
سیرہمدان، اننت ناگ