نظمیں

طلبگار
میں مفلس و نادارو لاچار ہوں
تیری رحمتوں کا طلبگار ہوں
نہیں کوئی پُرسان میرا یہاں
چلا جاؤں چوکھٹ سے تیری کہاں
عداوت سے دنیا کی دوچار ہوں

وہ وعدہ کہوں کیسے بھولانہیں
یہاں آکے خود کو ٹٹولا نہیں
میں ناحق ہی مصروف ہوتا گیا
مسلسل اندھیروں میں کھوتا گیا
مجھے بخش دو میں گنہگار ہوں

مرے بانکپن نے بھی مارا مجھے
نہیں یہ جوانی سہارا مجھے
مری عمر ساری ہی جانے لگی
ہراک سانس مجھ کو ستانے لگی
معالج توہی اک میں بیمار ہوں

یہاں جھوٹ بن کوئی چارہ نہیں
بنا دھوکا کوئی گزارا نہیں
یہاں قتل رشتوں کا بھی عام ہے
حیاء پر بھی چھائی سیہ شام ہے
میں بے کس و بے بس شرمسار ہوں

قیامت کے آثار دکھنے لگے
بدن مول مٹی کے بکنے لگے
جہاں اب یہ سارا اُجڑنے لگا
یہ انساں خدا سے ہی لڑنے لگا
پھر کہتا ہے میں ہی سمجھدار ہوں

جگدیش ٹھاکر پروازؔ
ساکنہ لوپارہ دچھن ضلع کشتواڑ
موبائل نمبر؛9596644568

اے ! مٹی کے انسان
اے ! مٹی کے انسان
تو اپنی حقیقت جان
کُل من علیھا فان
اے ! مٹی کے اِنسان

تم بھول گئے سب کو
ذرا یاد کرو ربّ کو
تو سرکش ، نافرمان
اے ! مٹی کے اِنسان

تیری شان نرالی ہے
تیرا خواب خیالی ہے
تیری عارضی ہے پہچان
اے ! مٹی کے اِنسان

جب حشر بپا ہوگا
ربّ تجھ سے خفا ہوگا
ذرا کھول کے دیکھ قرآن
اے ! مٹی کے اِنسان

جب اللہ پوچھے گا
تب کچھ نہیں سوجھے گا
کر یاد میرے احسان
اے ! مٹی کے اِنسان

جب موت کھڑی ہوگی
اَشکوں کی جھڑی ہوگی
تب خطا ہو تیرے اوسان
اے ! مٹی کے اِنسان

یہ دُنیا تجھے کیا دے گی
چند روزہ مزہ دے گی
کر آخرت کا کچھ سامان
اے ! مٹی کے اِنسان

خوشنویس میر مشتاق
ایسو اننت ناگ ،کشمیر
mirmushtaq649@gmail. com

 

توشیحی نظم‎
برائے روشن ضمیر سر

ر=رس بھری آواز ان کی، محفلوں کی شان ہے
و=واقعی اس دور میں ان کی الگ پہچان ہے
ش=شان احمد کیلئے سنتے نہیں کچھ بھی فضول
ن=نامناسب بات بھی سننا نہیں ان کو قبول
ض=ضدی لوگوںکے مقابل سر نہیں کرتے ہیں خم
م=مسنَدِ اخلاص پر رہتے ہیں وہ ثابت قدم
ی=یاد رکھتے ہیں سدا اپنا ہو یا ہو کوئی غیر
ر=رات ہو یا دن کوئی بھی چاہتے ہیں سب کی خیر
س=سچ یہی ہے اپنی محنت سے بنے ہیں اہل فن
ر=روک لے جو لاڈؔلہ ان کا نہیں ہے ہم سخن

میم عین لاڈلہ
حوض اسٹریٹ ،کولکاتہ
[email protected]

میرا قاتل!!!

تبسّم قاتلانہ تھا نگاہیں تِیْر کے جیسی!
ادائیں میرے قاتل کی مگر تھی پِیْر کے جیسی!!

مجھے اپنے ہی ہاتھوں سے پلایا زہر جو اس نے!
کہ ہرہر گھونٹ میں اسکے تھی لذّت شِیْر کے جیسے!!

سُخن وَر تھا مرا قاتل سناتا تھا مجھے غزلیں!
تھی درد انگیز اسکی غزلیں بالکل مِیْر کے جیسی!!

مرے بھی قتل کا قصہ بہت مشہور اب ہوگا!
کہانی ہوگی یہ راْنجھا اور اسکی ہِیْر کے جیسی!!

بَوقتِ قتل حالت میرے قاتل کی مگر دانش!ؔ
تھی بالکل کُند اور ٹوٹی ہوئی شمشیر کے جیسی!!

شیخ دانش عاصی اورنگ آبادی
اورنگ آباد مہاراشٹر
[email protected]

نظم
حالات کے پُر پیچ شکنجے میں رہےگا
یہ سر نہ سلامت کسی سودےمیں رہےگا
دشمن کو مرا سر نہیں یہ سجدہ گراں ہے
سر میرا کٹےگا جبھی سجدے میں رہےگا

پھوٹےگا کسی روز یہ سیلاب بِلا بھی
کب تک یہ سمندر کسی کوزے میں رہےگا
تعویز بناتا ہے وہ ابلیس نما شخص
شیطان سے بچنے کو جو حجرے میں رہےگا

کوٹھے کی طوائف سے اسے یاری بہت ہے
مجرے کا اسے شوق ہے مجرے میں رہےگا
ہر جا تری پہچان ہے بس میری بدولت
تو جائے جہاں نام بھی صدقےمیں رہےگا
اس شخص کے کردار کی پہچان یہی ہے
ہوگا جو منافق سبھی حلقے میں رہےگا
بہتر ہے ابھی سے تو الگ راہ بنالے
کب تک تو کسی شوخ کے دھوکے میں رہےگا
تخلیق رسالے میں چھپا کرتی ہے اکثر
راقمؔ کا ابھی دور ہے چرچے میں رہےگا

عمران راقمؔ
موبائل نمبر؛9062102672