نظمیں

قطعات
احساس پہ گرتے ہیں اوقات کے پتھر
جذبوں کو کچل دیتے حالات کے پتھر
اشکوں نے اُجاڑا میرے ارمانوں کا گلشن
آنکھوں سے برستے ہیں جو برسات کے پتھر

لائے گئے قاتل کردار میں
فاسق بنے منصف دربار میں
اُجڑ گیا جو گلشن یاد آتا ہے
کاغذی پھولوں کے بازار میں

یہ زندگی برباد یوں کرتا رہا
اپنے لئے ہر روز میں جیتا رہا
کچھ نہیں اوقات تیری ہے سعیدؔ
اپنے بارے میں یہی سنتا رہا

ڈوب کر غم کے ساگر میں ساحل مجھے دکھتا ہے
راستہ فنا کا اب کے منزل مجھے دکھتا ہے
فکر و عمل کا کھیل سارا نامِ زندگانی ہے
جسے کم نصیبی کا گلہ وہ کاہل مجھے دِکھتا ہے

سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر، سرینگر
موبائل نمبر؛9906796380

حمدیہ ہائیکو
سب سے برتر وہ
سب میں یکتا اللہ ہے
سب سے بہتر وہ
ّّ—-
سب کا محور وہ
خلقت چاروں جانب ہے
سب کا مرکز وہ
ّّ—-
سب کا رازق تُو
دونوں جگ کا تُو داتا
سب کا خالق تُو
ّّ—-
سب یہ کہتا ہے
رکھوالا ہے سب کا جو
اللہ، اللہ ہے

علی شاہدؔ دلکش
کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج
ضلع کوچ بہار، مغربی بنگال
موبائل نمبر؛8820239345

قیامت کی ہیں نشانیاں۔۔۔
یہ بارشیں‘ سیلاب‘ طغیانیاں خدا خیر کرے

قیامت کی ہیں نشانیاں خدا خیر کرے
کہیں بھونچال کے جھٹکے، کہیں بجلیاں گرتی ہیں

کہیں ژالہ باری کی دہشت، کہیں بستیاں اُجڑتی ہیں
ہر سو ہیں قہر سامانیاں، خدا خیر کرے

قیامت کی ہیں نشانیاں خدا خیر کرے
جھونپڑیاں مسمار ہوئیں، ہوا کے اِک جھونکے سے

آشیانے اُجڑ گئے، آندھی کے اِک جھونکے سے
ہر سو ہیں تباہ کاریاں خدا خیر کرے

قیامت کی ہیں نشانیاں خدا خیر کرے
قیامت برپا ہوئی، بادلوں کے گرجنے سے کہیں

محشر برپا ہوا، بجلیوں کے کڑکنے سے کہیں
ہر سو ہیں ویرانیاں، خدا خیر کرے

قیامت کی ہیں نشانیاں خدا خیر کرے
موسم نے تیور بدلے ہیں، ہم بھی کچھ کم نہیں

خطا ہم سے بھی ہوئی ہے، اُس کا کچھ غم نہیں
ہر سو ہیں پریشانیاں، خدا خیر کرے

قیامت کی ہیں نشانیاں خدا خیر کرے
خونِ ناحق بہانے کی آندھی چلی ہے شہر میں

سنسان پٹری جابجا، گلی گلی ہے شہر میں
چھولوں کی کارستانیاں، خدا خیر کرے

قیامت کی ہیں نشانیاں خدا خیر کرے
لت پڑی ہے اُن کو دولت کی ، مریض پریشان ہے

تنگ دست ناتواں صحیح، آخر وہ بھی انسان ہے
ہر سو ہیں بیماریاں، خدا خیر کرے

قیامت کی ہیں نشانیاں خدا خیر کرے
رشتوں کا لحاظ کوئی‘ نہ دستور حیات ہے

خود غرضی کا دُور ہی، طرز حیات ہے
ہر سو ہیں من مانیاں خدا خیر کرے

قیامت کی ہیں نشانیاں خدا خیر کرے
بیٹیاں اب محفوظ نہیں، انسانوں کی بستی میں

ماں بہن سلامت نہیں، انسانوں کی بستی میں
ہر سو ہیں پشیمانیاں، خدا خیر کرے

قیامت کی ہیں نشانیاں خدا خیر کرے
ماں کا رُتبہ پامال کیا، ہم نے ماں کو کیا دیا

گردن شرم سے جھکتی ہے ماں کو کیا صلہ دیا
ہر سو ہیں لن ترانیاں، خدا خیر کرے

قیامت کی ہیں نشانیاں خدا خیر کرے
مسجدوں میں سکون نہیں، سجدوں میں راحت نہیں

دل کہیں اور ہے، نماز کی چاہت نہیں
موبائیل کی ہیں مہربانیاں، خدا خیر کرے

قیامت کی ہیں نشانیاں خدا خیر کرے
ماہر موسمیات سے نہ پوچھو حفیظؔ باد یار موسم کا حال

پوچھو اُس سے موسم کا حال جو جانتا ہے سب کا حال
ہر شئے یہاں منقطع ہوئی، خدا خیر کرے

قیامت کی ہیں نشانیاں خدا خیر کرے

حفیظ اللہ حفیظؔ چھانہ پورہ، سرینگر،موبائل نمبر؛ 9419085862