نظمیں

لمحاتِ ربُودگی
تخلیل بہشت ساماں اور تصور لامکانی ہے
ہے دِل کہنے پہ آمادہ یہ کس کی مہربانی ہے
وفورِ و جد میں کہتی فضا اپنی کہانی ہے
زمین سورج کی آمد سے ہوئی پھر ضوفشانی ہے

نمودِ سحر کے باعث اُجالا تہہ و بالا ہے
شبِ تاریک نے جسکو شِکم میں اپنے پالاہے

وہ شاخِ گُل پہ پھولوں کی عجیب ہے چال مستانی
نظر افروز اِن پہ کیا ہے شبنم کی فروانی ہے
ہیں گُل پوش باغ و بن سارے لئے منظر سا گلدانی
خوشا! اس پہ یہ صبح دم فِضا ہے شوخ مستانی
زمیں ایسی لگے ساری کہ پرتوے آسمانی ہے

کسی الہڑ حسینہ کی مچلتی نوجوانی ہے
اچھوتا رنگ و نگہت پُر نسیمِ زندگی لائی

طبعِ معدوم مائل ہے بجانب جادہ پیمائی
لئے پھرتے ہیں دشت و بن نئے احساس کا منظر
اُمڈ آئی ہے پیڑوں پر عجب کیا شانِ برنائی
وفورِ کیف میں غلطاں زمین کا ذرّہ ذرّہ ہے

جدھر دیکھو یہ باغ و بن سراسرہرا بھرا ہے
مجھے مطلق نہیں بھاتی یہ رونق سبزہ زاروں کی

مرے دیدے جمعیت ہے اپاہج تن بیماروں کی
خفا اپنی خطا پہ ہوں حزیں دِل ناتواں عُشاقؔ
رہے آباد و زندہ یاد یہ بستی باوقاروں کی
عدم کی راہ پہ اپنا قدم اب گامزن ٹھہرا
ہمارے واسطے صحرا پیارا باغ و بن ٹھہرا

عُشاق کشتواڑی،کشتواڑ
صدر انجمن ترقی اُردو (ہند) شاخ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469

زرد موسم کی بارش

زرد موسم کی سنہری نیم گرم دھوپ
بدن کو تھپتھپاکے سُلاتی ہے
جسم کی کائنات پہ سہانی غنودگی اِتر اتی ہے
خوابوں کا کوئی نیا جزیرہ دھند سے باہر نکل آتا ہے
دھوپ کی شاہراہ پر چلتا مسافر سستانے بیٹھتا ہے
دھوپ اور بادل کا پرانا رشتہ ہے
ان کی آنکھ مچولی کائنات میں پنپتی زندگی کا محور ہے
زندگی اپنی کھلبلی پہ قائم و دائم ہے
دھوپ چھلکتی ہے تو عرق شبنم میں ڈھل جاتا ہے
شعاعیں سمندروں کا اوس اٹھا کے بُنتی ہیں سفید روئی کے بادل
نیلگوں فلک پہ سکھانے رکھی جاتی ہے
سفید بادلوں سے بُنی چادر
فلک اسے وقت کے ہاتھوں نچوڑتا ہے
چھڑکتا ہے زمین کے کھردرے بدن پہ
سرورِ خواب سے جگانے کے لئے
آنکھ مچولی کھیلنی ہے
کائنات میں پنپتی زندگی کو دھڑکنے کے لئے
کائنات کی دھڑکن زندگی کا محور ہے
زندگی جب وقت گزارتے تھکنے لگے
سنہری دھوپ میں سستانے بیٹھتی ہے
نیند اُسے اپنی آغوش میں لیتی ہے
کائنات جیسے رُک جاتی ہے
دھند کے جزیرے پہ
کچھ دیر کے لئے
پھر جگانے آجاتی ہے اسے نیم خُنک
زرد موسم کی بارش۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد،اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419045087