نظریاتِ سرسید احمد خانؒ ناقابل فراموش

خواجہ احمد حسین

زمانہ ایسے شخص کو کبھی فراموش نہیں کر پاتا جو اپنے عہد میں اپنے سماج و ملت کے لئے بے لوث خدمات انجام دیا ہو ایسے لوگ آپ کے بھی سماج میں ضرور رہے ہونگے جو اپنے اپنے دور میں مدرسہ و اسکول بنوائے ہونگے ۔میرا ماننا ہے کہ وہ سارے افراد اس بنیادی کام کو انجام دینے کے لیے جس عظیم ماہر تعلیم و مفکر سے متاثر ہوئے ہونگے ،وہ کوئی اور نہیں صرف اور صرف سر سید احمد خانؒ کی ذات شریف ہوگی۔اس لیے ایسے لوگوں کو سماج ثانی سر سید کا خطاب دیتا ہے۔1857جیسے پر آسیب دور میں جب انگریز ی حکومت ہندوستانی قوم اور بالخصوص مسلمانوں کے جانی دشمن بن چکے تھے۔علماء دین بھی برٹش حکومت کے خلاف فتویٰ صادر کر چکے تھے اس نازک صورتحال میں مسلمان ہر شعبہ حیات میں تباہ و برباد ہو چکے تھے۔اس ماحول میں مٹی کے دیئے کی شکل میں سید احمد خان نے نہ صرف ہمت دکھائی بلکہ اپنے’’نظریئے اور انداز قیادت‘‘ کے ذریعہ محبت کا ایسا بیج فرنگیوں کے دلوں میں بویا۔جس کا اثر ساری دنیا نے دیکھا۔ سر سید کے دل میں اللہ نے ہی یہ حوصلہ بخشا ہو ہوگا۔ ان کی سوچ اوروں کی سوچ سے بلکل الگ تھلگ تھی۔ان کا نظریہ تھا کہ’’ قیادت جب کمزور ہوتی ہے،تو زبوحالی تقدیر بناتی ہے۔جذباتی اور مذہبی قیادت نہ کبھی اس ملک کے لئے کارگر تھی نہ کبھی ہوگی۔جو قیادت حکمراں کے سامنے ہاتھ پھیلا ہوئے ہو اس قیادت سے آپ کیا امید کر سکتے ہیں۔نمائشی قائدین کو ہم بہت جلد’’ قائد ملت ‘‘ کا خطاب دے دیتے ہیں، جب ان کی اصلیت سامنے آ تی ہے تو گالیاں دینے میں بھی ذرا دیر نہیں کرتے ۔ایسے ہی نام نہاد مفاد پرستوں کے لئے کسی شاعر نے کہا تھا کہ:
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
آج ہم سر سید ڈے منا رہے اور منانا بھی چاہئے۔ مگر خیال رہے کہ سرسید نے قوم و ملت کے لئے پیروں میں گھنگرو بھی باندھے۔معاف کیجئے گا فی الحال قوم کی زبو حالی کی اصل سبب سستی قیادت ہے۔ فکری پرواز اور عملی کما لات سے جب تک ہم آشنا نہ ہونگے۔ہم سر سید احمد خان کے مشن تک نہیں پہنچ سکتے۔ عظیم مفکر کو سلام۔ ان کی بے لو ث خدمات اور احسانات کا ہم بدلہ کبھی نہیں چکا سکتے، جن کا سونا جاگنا سب قوم و ملت کے لئے وقف تھا۔مرحوم خواجہ جاوید اختر (علیگ) کا یہ شعر بطور خراج عقیدت کہ:
روشنی بانٹنے کی چاہت میں
اک دیا رات بھر نہیں سوتا
)رابطہ 9831851566 (
[email protected]