نصب

ڈاکٹر اشرف لون

تنقیدکا منصب کیا ہے۔اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور آئندہ بھی لکھا جائے گا۔اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ادب کے ساتھ ساتھ تنقید کی بھی بڑی اہمیت ہے۔تنقید کی اہمیت پہلے زمانے بالخصوص ارسطو کے زمانے سے بھی تھی اور آج بھی ہے کہ اس نے ہمیں ادب کو مختلف زاویوں سے سمجھنے کی ترغیب دی ہے اور ادب کو سمجھنے کی مختلف راہیں دکھائی ہیں۔ ادب کیا ہے اور غیر ادب کیا ہے اس نے ہمیں یہ بھی سمجھایا ہے۔اقبال کیوں بڑے شاعر ہیں یہ بھی بتایا ہے اور منٹو و پریم چند کے افسانے میں کون سی ایسی چیز ہے جو انہیں دوسرے افسانہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے، یہ بھی ہمیں تنقید سے ہی پتا چلا۔

تنقید فیصلہ سناتی ہے لیکن اس فیصلے میں سچائی، غیر جانبداری اور ایمانداری ضروری ہے۔ یہاںذاتی عناد یا پسند کا دخل نہیں۔نہ ہی محض کسی تخیلیٔ فیصلے کے لئے کوئی جگہ ہے بلکہ یہاں ہر فیصلہ منتقی ہوتا ہے اورجس کی بنیاد حقائق پر ہو۔

تنقید ادب کی ہم راہی ہے۔صحیح تنقید ادب کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور ساتھ ہی ادب کو صحیح راستہ بھی دکھاتی ہے۔وہ راستہ جس پر چل کر ادب کامیابی کی نئی منزلوں کو عبور کرتا ہوا آگے بڑھتا ہےاور راستے پر اپنے نقش چھوڑ جاتا ہے۔ اور آج اکیسویں صدی میں کہا جائے کہ ادب بنا تنقید کے لنگڑا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ادب دراصل انسانی زندگی کے مختلف گوشوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ چاہے آپ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، آپ کو یہ ماننا پڑے گا ادب کا زندگی سے گہرا  رشتہ ہے۔اور اگر ادب ہمیں زندگی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے تو تنقید بھی ایک طرح سے یہی کام کرتی ہے۔چاہے ایک نقاد کسی بھی نظریہ کے تحت فن پارے کو پرکھے وہ بھی کسی  نہ کسی طرح اس فن پارے کے توسط سے زندگی کی تشریح کرتا ہے۔ وہ بھی ہمیں زندگی کو سمجھنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ جن لوگوں نے تنقید سے یہ منصب چھیننا چاہا تھا وہ زیادہ دور تک نہیں چل سکے۔

ایک تنقید نگار اگر قاری پر اپنا فیصلہ تھوپے یا تھوپنا چاہے تو وہ اپنے منصب سے انصاف نہیں کرسکتا۔اگر اس نے کسی جانبداری کے تحت قاری پر حاوی ہونے کی کوشش کی تو تنقید کا مقصد و منصب وہیں فوت ہوجاتا ہے۔ایک تنقید نگار کا کام قاری کا ہمسفر بننا ہوتا ہے ۔ یہاں تاناشاہ بننے کے امکانات نہیں۔وہ قاری کو اپنے فیصلے میں ایک طرح سے شریک کرتا ہے۔تنقید کا مقصد دراصل قاری کو کسی بھی غزل، نظم، ناول یا افسا نے کو نئے سرے سے پڑھنے پر اکسانا ہے اور پھر اس کے بعد قاری یہ فیصلہ خود کرپائے کہ ہاں فلاں تنقید نگار نے صحیح بات کہی ہے یا اس کا فیصلہ یہاں پر غلط ہےیا یہ کہ قاری کو مختلف جگہوں پرنقاد کی بات سے اتفاق نہیں۔ ایک قاری اس کا بھی اظہار کرتا ہے۔

تنقید کے دو بڑے کام ہوتے ہیں:ایک تشریح اور دوسرا فیصلہ سنانا۔ یہ دونوں کام ایک ساتھ چلتے ہیںکہ فیصلہ تک پہنچتے پہنچتے دراصل ایک تنقید نگار فن پارے کی تشریح یا وضاحت ہی کرتا ہے اور بعد میں اسی وضاحت کی بنیاد پر وہ اپنا فیصلہ سناتا ہے۔

ایک تنقید نگار دراصل اس وضاحت کے دوران میں ہمیں اس کتاب یا فن پارے کے بارے میں بتاتا ہے۔اس کے مواد، اس کی روح، اس کی فنی حیثیت کے بارے میں بتاتا ہے اور ساتھ ہی اس کو صحیح ثابت کرتا رہتا ہے کہ کہاں تک اس کا فیصلہ درست ہے یا اس کی کہی ہوئی باتیں سچی ہیں۔

کسی کتاب یا ناول و نظم پر تنقید کرتے یا لکھتے ہوئے ایک نقاد صرف اس کتاب تک اپنے آپ کو محدودنہیں رکھے گا۔وہ اس کتاب کے مصنف کی دوسری کتابوں کا بھی رخ کرے گا، مصنف کی زندگی کی بھی ورق گردانی کرے گا۔چاہے اس کام کے دوران وہ تاریخ کی بھی مدد لے یا کئی دوسرے ادبی ہتھیاروں کا استعمال کرے لیکن اس کا بنیادی مقصد کتاب کو سمجھنا اور ہمیں سمجھانا ہوگا۔وہ اپنی پسند ناپسند کے مطابق کوئی فیصلہ نہیں سنائے گا، نا ہی اس کتاب یا ناول کے متعلق کسی سنی سنائی تنقیدی بات کو دہرائے گا بلکہ اس کا فیصلہ اپنا ہوگا اور یہی وہ فیصلہ ہے جو ہمیں کتاب کو نئے سرے سے سمجھنے میں مدد دے گا اور اسے پڑھنے یا دوبارہ پڑھنے پر اکسائے گا۔

ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ کوئی بھی ذاتی رائے یا جانبدرانہ فیصلہ ہمیں فن پارے کو سمجھنے میں مدد نہیں دے گا بلکہ ایسے فیصلے گمراہی کا باعث بن سکتے ہیں۔مثال کے طور پر اگر ایک نقاد کو غالب و پریم چند کے نظریہ فکر یا ان کی زندگی جینے سے ایک طرح کی نفرت ہے اور یہ سوچ اس کے فن یا تنقید پر حاوی ہوئی تو ایسے میں جو اس نقاد کا فیصلہ ہوگا وہ ذاتی پسند کا ہوگا اور ظاہر سی بات میں اس میں عناد بھی ہوگا۔ایسے نقاد کی رائے ہمیں ادب کو صحیح تناظر میں سمجھنے میں مدد نہیں دے سکتی۔تنقید جس غیر جانبداری کا تقاضا کرتی ہے یہ فیصلہ اس سے کوسوں دور ہے۔

کسی تنقید یا تنقیدی فیصلے پر بھروسہ کرنے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگاکہ ایک بہتر نقاد یا بہتر تنقید کی پہچان ہم کس طرح کریں۔اور اگر اس سے فیصلہ سنانے میں کوئی کوتاہی ہوئی ہو تو ہم اس کوتاہی کو صحیح تناظر میں لیں۔یہ تبھی ممکن ہے جب ہم جانتے ہوں کہ نقاد غیر جانبدار ہے۔ایک نقاد کو ذہنی طور پر بیدار اور اس کے اندر لچک ہونی چاہیے، بصیرت سے پر، تمام اثرات سے با خبر ، مختلف اور اہم چیزوں پر مضبوط پکڑ اور چیزوں کو ویسے ہی دیکھے جیسی کہ وہ ہیں نہ کہ کسی جانبدارانہ یا ذاتی پسند کی عینک سے۔نقاد کو ذاتی پسند، تعلیمی ، مسلکی، ذات کی، جماعت کی اورقومیت کی جانبداری سے پاک و صاف ہونا چاہئے تبھی وہ کسی صحیح اور قابل قبول فیصلے پر پہنچ سکتا ہے جو عام قاری کے لیے قابل قبول ہوں۔

نقاد کا منصب اپنا فلسفہ جھاڑنا نہیں اور نہ ہی اس کا یہ فلسفہ کسی تحریر کی تشریح یا تنقید میں حاوی ہونا چاہیے۔ اس طرح کی تنقید کتھونی بن جاتی ہے جو قاری کو تذبذب کا شکار کرتی ہےاو ر اس طرح قاری کا دھیان جلد ہی اس تحریر سے اٹھ جاتا ہے اور کبھی کبھی یہ تذبذب نفرت میں بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔اس لیے ایک نقاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ تنقید لکھتے وقت توازن کا دامن تھامے رکھے۔اس کی باتوں کا محور صرف اور صرف فن پارہ اور اس سے متعلق چیزیں ہونی چاہیں۔ تاکہ قاری صحیح راہ پر گامزن رہے اور اس کی صحیح راہنمائی ہوسکے۔

یہاں پر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ادب اور دوسرے فنون کے نقاد کے لئے خاص تعلیم ضروری ہے اور اس خاص تعلیم سے مراد یہاں وہ تعلیم ہے جو اسے علمی مہارت اور ذہنی پختگی عطا کرتی ہو ۔ایک نقاد کے وہ علم ضروری ہے جس سے اس کی نظر پختہ ہو اور وہ دور اندیشی کا مظاہرہ کر سکے اور صحیح فیصلہ پر پہنچ سکے۔اسے ذہنی پختگی کی ضرورت اس لئے ہے کہ وہ اس علم کو کارآمد بنا سکے۔اگر وہ اس تعلیمی قابلیت اور ذہنی پختگی سے ماورا ہے تو یہ بات طے ہے کہ اس کی رائے یا فیصلے کم وزن رکھتے ہوں گے اور وہ قاری پر اپنا کوئی اثر نہ چھوڑ پائیں گے۔

پچھلی کئی دہائیوں میں تنقید و تھیوری سے متعلق متعدد ومختلف نظریات سامنے آئے ہیں، لیکن تنقید کا مقصد بہرحال تشریح و توضیح، جانچ، فیصلہ اور اس کا م کامنصب آفاقی ہوگا۔یہی تنقید کا مقصد و منصب ہوتا آیا ہے اور آئندہ بھی یہی اس کا منصب ہوگا۔

چاہے ایک قاری ایک نقاد کے فیصلے سے متفق ہو یا نہ ہو، بہرحال ہر نقاد اپنا فیصلہ سنانے کا مجاز ہے، وہ یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اپنی رائے دوسروں کے سامنے رکھے اور قاری یا قارئین کے ایک بڑے گروہ کو اپنی رائے ماننے پر آمادہ کرے۔ کسی بھی فن پارے یا کتاب پر تنقید کرتے یا لکھتے وقت ہمیں اپنی پسند ناپسند کو منتقی انداز میں پیش کرنا ہوگا۔آیا ہماری پسند کا کوئی جواز ہے، کوئی دلیل ہے۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تنقید لکھتے وقت یا جب ہم تنقید کا بار اپنے کندھوں پر اٹھانا چاہتے ہوں تو ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اس سلسلے میں کلاسیکی ادب ہماری بہت مدد کرے گا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غیر ضروری طور پر کلاسیکی اصولوں کا اطلاق جدید فن پاروں پر کریں بلکہ کہنے کا مقصد یہاں یہی ہے کہ ہم کچھ اچھی چیزیں اپنے کلاسیکی ادب سے  لے لیں۔لیکن تجربے کو غلط نظر سے نہ دیکھیں۔ ایسا کرنے سے ادب و تنقید پر جمود طاری ہوگا اور جمود ادب کے لیے مضر ہے۔

کلاسیکی ادب کے مطالعے سے ہمارے ذہن کے دریچے کھلنے چاہیں نہ کہ ہم اپنے ہی خول میں بند ہوکر رہ جائیں اور رجعت پسندی اور محدود سوچ و فکر کا مظاہرہ کریں۔یہ کسی بھی صورت میں ہمیں ادب کی تفہیم میں مدد نہیں کرے گا۔ اچھی تنقید لکھنے اور اچھے فیصلے پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ دنیائے ادب سے ہم واقف ہوں،دنیائے ادب کے بڑے فن پاروں سے ہماری واقفیت ہو۔ بقول آل احمد سرور

’’ تنقید کو دوسری درجے کی چیز سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ اچھی تنقید محض معلومات ہی فراہم نہیں کرتی بلکہ وہ سب کام کرتی ہے جو ایک مورخ، ماہر نفسیات، ایک شاعر کرتا ہے۔ تنقید ذہن میں روشنی کرتی ہے اور یہ روشنی اتنی ضروری ہے کہ بعض اوقات اس کی عدم موجودگی میں تخلیقی جوہر میں کسی شے کی کمی محسوس ہوتی ہے۔‘‘

���

جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی

ای میل؛[email protected]