مومن اور منافق کی زندگی میں فرق!

شبیر ضیاء
 جو مومن مدد کی طاقت رکھنے کے باوجود مدد نہ کرے وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے۔ حضرت کعب ابن مالک رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : مومن کی مثال کھیت کی تروتازہ اور نرم شاخ کی سی ہے کہ جسے ہوائیں جھکا دیتی اور گرا دیتی ہیں ، اور سیدھا بھی کر دیتی ہیں ، یہاں تک کہ اس کا وقت پورا ہو جاتا ہے ، اور ہاں میں صنوبر کے درخت کی سی ہے جو جما کھڑا رہتا ہے، اسے کوئی جھٹکا نہیں لگتا ( یعنی نہ تو وہ ہوا کے دباؤ سے گرتا ہے اور نہ جھکتا ہے ) یہاں تک کہ وہ دفعتہً زمین پر آ گرتا ہے ۔‘‘(بخاری و مسلم)
فائدہ :   اس حدیث مبارکہ میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مومن اور منافق کی زندگی کا فرق انتہائی دلکش مثال کے ذریعے واضح فرمایا ہے ، اس حدیث میں مومن کی مثال تو کھیتی کی تروتازہ اور نرم شاخ سے دی جا رہی ہے کہ جس طرح ہواؤں کے تھپیڑے اس شاخ پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں ، اور وہ ہوائیں اس شاخ کو گرا دیتی ہیں اور سیدھا بھی کر دیتی ہیں لیکن وہ شاخ ہواؤں کے سخت و تند تھپیڑے کھا کھا کر بھی اپنی جگہ اپنے وقت کے آخری لمحہ تک کھڑی رہتی ہے ، اسی طرح مومن کا حال بھی یہی ہے کہ کبھی تو اسے مصائب و مشکلات اور ضعف و بیماری کے سخت تھپیڑے گرا دیتے ہیں ، کبھی صحت و تن درستی اور خوشی و مسرت کے جانفزا جھونکے ان کی زندگی میں بشاشت و انبساط کی لہر پیدا کر دیتے ہیں ، اس طرح وہ اپنی زندگی کے دن پورے کرتا رہتا ہے۔
    یہاں منافق کی مثال صنوبر کے درخت سے دی گئی ہے کہ جس طرح صنوبر کا درخت بظاہر ایک جگہ کھڑا رہتا ہے اور اس پر ہوا کے دباؤ کا اثر انداز نہیں ہوتا مگر جب اس کا وقت آتا ہے تو وہ یکبارگی زمین پر آ گرتا ہے ، بالکل اسی طرح منافق کا حال ہے کہ وہ دنیاوی زندگی میں بظاہر خوش و خرم اور ہشاش بشاش نظر آتا ہے ، نہ اس پر مصائب و مشکلات کی بارش ہوتی ہے اور نہ بیماری وضعف کے تھپیڑے اس پر اثر انداز ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ یکبارگی بغیر کسی بیماری و ضعف کے موت کی وادی میں گر جاتا ہے۔
    حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ مومن و مسلمان کی زندگی مصائب و مشکلات اور تکلیف و پریشانی میں گزرتی ہے بھی وہ بیماری وضعف کے جال میں پھنسا رہتا ہے ،بھی اسے مال و زر  کی اپنے لپیٹ میں لیتی ہے ، کبھی دوسرے دنیاوی حوادث و آلام اس کی روشن زندگی پر سیاہ بادل بن کر چھا جاتے ہیں مگر مومن و مسلمان اسی حالت میں زندگی گزارتا ہے اور یہ تمام چیزیں اس کے حق میں اخروی سعادت و خوش بختی کی علامت قرار دی جاتی ہیں ، بشرطیکہ صبر و رضا اور شکر کا دامن کسی مرحلے پر ہاتھ سے نہ چھوٹے۔
   اس کے مقابلہ میں منافق و فاسق کی زندگی ایسی ہوتی ہے جس پر نہ تو زیادہ تر غم و آلام کا سایہ ہوتا ہے ، نہ بیماری و پریشانی کے سیاہ بادل اور نہ دوسری دنیاوی ذلت و نا کامرانی اور مصیبت و پریشانی کا چکر بلکہ وہ بظاہر تن درست و توانا اور خوش و خرم رہتا ہے ، اس طرح نہ اسے وہ درجہ ملتا ہے جو مصائب و پریشانی کے کفارہ کے طور پر مومن و مسلمان کو حاصل ہوتا ہے اور نہ اسے وہ ثواب و سعادت میسر آتی ہے جو مصائب و پریشانی میں مبتلا ہو کر مومن و مسلمان کی اخروی کامیابی و فلاح کا ضامن بنتی ہے۔
نوٹ :  اسلام کی خدمت کے لیے غلطی ہو جانے پر جھک جانا یہ آدم علیہ السلام کی سنت ہے اور غلطی کرنے کے باجود اس پر اکڑ جانا یہ شیطان کی فطرت ہے۔
اللّٰہ رب العزت سے دعا کرتے رہے ، اللّٰہ تعالیٰ دین کی خدمت لے ، حق بات کو بلند کرنے کے لیے طاقت دے اور منافقت سے بچائے ۔
(رابطہ۔ 9122716388)