موسمیاتی تبدیلیاںتباہی کا پیشِ خیمہ غور طلب

سید مصطفیٰ احمد ۔بڈگام
آج جس مسئلہ نے خوفناک شکل اختیار کر لی ہے، وہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ کچھ سال پہلے اس کا چرچہ بہت محدود تھا، مگر اب یہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ خطرے کی وارننگ ہے۔ یہ ہمیں جلد از جلد اپنے رویوں کو بدلنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس کے نتائج بھیانک ہیں۔ اگر دنیا کےسارے ممالک خاص کر مغربی ممالک نے اس ضمن میں ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے، تو تباہی ہم سب کا مقدر بن جائے گی۔ صنعتی انقلاب کے بعد موسمیاتی تبدیلی نے سنگین شکل اختیار کر لی ہے۔ ہر جگہ صنعتیں نمودار ہونے لگی۔ Capital کی لالچ نے لوگوں کو ہوس کا اور زیادہ پجاری بنا دیا ہے، بنا سوچے سمجھے قدرت کے کارخانے میں ڈاکوؤں کی طرح لوٹ مار شروع ہوئی ہے۔ جس کا ہاتھ جہاں چلا، اس نے اتنی ہی لوٹ مار کرلی ہے۔ جن ممالک کے پاس جتنی پہنچ تھی، انہوں نے اس دوڈ میں اتنا منافع کمایا ۔ کوئی بھی کسر ان ممالک نے باقی نہیں چھوڑ دی ہے۔ اس کا اثر ماحولیاتی آلودگی کی شکل میں آیا ہے۔ گرمی میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہونے لگا۔ Ecological balance میں دراڑ پیدا ہوگئی ہے۔ قدرت کا نظام بہت باریک اور حساس ہے۔ چھوٹے جراثیم سے لے کر بڑے وحوش تک، ہر کسی کی انفرادی ضرورت ہے۔ Producers سے کر saprophytes قدرت میں ایک چین بناتے ہیں ،جسے ہم food chain کے نام سے جانتے ہیں، اس میں کوئی بھی خلل تباہی لاتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصل زندگی کا مرکز سمندر ہیں۔ Photosynthesis سب سے زیادہ پانی میں ہوتا ہے جو زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ صنعتی انقلاب اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے ذیلی انقلابات نے پہلے سمندر کو آلودہ کیا۔ اس کا سیدھا اثر زمین پر رہنے والی مخلوق پر پڑچکا ہے، جیسے کہ پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ ہم food chain سے جڑے ہوئے ہیں۔جب زندگی کا مرکز ہی آلودہ ہو، تب ہم خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حالات کیسے ہوسکتے ہیں۔
جہاں کل تک جھلسا دینی والی دھوپ ہوا کرتی تھی، وہاں آج درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ جو زمینیں کل تک سرسبز اور شاداب ہوا کرتی تھی، وہ آج بنجر بن گئی ہے۔ جو پانی کل تک آب حیات مانا جاتا تھا، وہ آج زہربن چکا ہے۔ اسی طرح جو ہوا خالص ہوا کرتی تھی اور روح کو سکون بخشتی تھی، آج وہ زہر آلودہ ہوچکی ہے۔ جنگلات سکڑتے جارہے ہیں اور ویرانیاں بڑھتی جارہی ہیں ۔ بیماریوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ وباء جیسی صورتیں چہارسُو ہیں۔ Glaciers پگل رہے ہیں جس کی وجہ سے چھپے ہوئے جراثیم اب نمودار ہورہے ہیں جو بہت خطرناک قسم کی بیماریوں کے موجب ہیں، جن کے لئے ہم کسی بھی طریقے سے تیار نہیں ہے۔ Antarctica کی برف پگل جاتی ہے جو پوری دنیا کو خطرے کی زد میں لارہی ہے۔ اس براعظم سے اتنا پانی نکل کر آئے گا کہ سمندر کی لہرے آسمان سے باتیں کریں گی ۔ اس کے علاوہ اس صدی میں سب سے زیادہ گرم سال کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ یہ گرم سال اس بات کی گواہی دیتا ہےکہ حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ بہت سارے دریا اب سوکھ چکے ہیں یا پھر سیلابوں کی زد میں ہیں۔ بارش یا تو تھمنے کا نام نہیں لیتی یا پھر برسوں تک اپنا چہرہ نہیں دکھاتیں ہیں۔ غرض زندگی کے ہر شعبے پر موسمیاتی تبدیلی کا اثر نمایاں ہے، اس کے پنجے ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرے ہوتے جارہے ہیں۔
وقت کی اشد ضرورت ہے کہ اس کا تدارک کیا جائے۔اس ضمن میں مسلسل تاخیر جان لیوا ہوسکتی ہے۔ سب کو اس میں اپنا رول نبھانا ہوگا۔ حکومت سے لے کر ماہرین کو اس میں سب سے زیادہ پہل کرنی پڑی گی۔ ایک فنڈ قائم کیا جانا چاہئے جس کا واحد مقصد موسمیاتی تبدیلیوں کا صحیح اور پائیدار علاج ہو۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ بلا وجہ ماحول کو خراب کرنے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ اسکولوں میں ماحولیات کے متعلق جانکاری فراہم کرنی چاہیے تاکہ معصوم اذہان پہلے سے ہی ماحول کے متعلق حساس رہے۔ وہ ماحول کے تحفظ میں پیش پیش رہے۔ اپنے اندر ماحول کو بچانے کی قوت پیدا کرے۔ قدرت کی کسی بھی چیز کو بے کار نہ سمجھے۔ ہر چیز کو قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھے۔ اپنے آپ کو ماحول کے رکھوالے سمجھے ۔ ایک بیدار ذہن پیدا کرے اور آنے والے کل کی فکر کرے۔ مغربی ممالک کو زیادہ اس ضمن میں زیادہ فکر کرنی چاہیے، زیادہ تباہی تو ان ممالک نے ہی مچائی ہے۔ Common but differentiated responsibilities کے تحت ان پر زیادہ ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ non-conventional resources کا بھی بھرپور استعمال کیا جاسکتا ہے۔ Fuels from plants ایک ایسا طریقہ جو fossil fuels کی مصیبتوں سے آزادی دلا سکتا ہے۔ sustainable agriculture کا نعرہ عام کیا جانا چاہیے ۔ وہ فصلیں اُگائی جائیں جو ماحول کے موافق ہو۔ اور جاتے جاتے change in attitude وقت کی ضرورت ہے۔
m [email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔