مغل روڈکو اب تو کھولیں!

خطہ پیر پنچال کو وادی کشمیر کے ساتھ ملانے والی واحد شاہراہ مسلسل ٹریفک کیلئے بند ہے حالانکہ اب مئی کا نصف حصہ گزر چکا ہے ۔ایک طرف اس شاہراہ کے تئیں سنجیدگی ظاہر کرنے کیلئے اس کی دیکھ ریکھ کی خاطر محکمہ تعمیرات عامہ نے ایک الگ ڈویژن ’’مغل روڈ ڈویژن‘‘کے نام سے قائم کیا ہوا ہے تاہم دوسری جانب حالت یہ ہے کہ یہ شاہراہ ایک رابطہ سڑک تک محدود ہوکر رہ گئی ہے کیونکہ اس سڑک کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے ۔یہ شاہراہ ، جس کا تخیل مرحوم شیخ محمد عبد اللہ نے پیر پنچال خطہ کے لوگوں کو وادی کے ساتھ جوڑنے اور ان کی اقتصادی حالت میں بہتری لانے کی غرض سے دیا تھا ، اب یہاں کے لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت بن چکی ہے تاہم سرما کے 4سے6ماہ کے دوران جب یہ بند ہو جاتی ہے تو خطہ کے لوگوں کا انحصار دوبارہ جموں۔ سرینگرقومی شاہراہ پر ہو جا تا ہے جس کے باعث اس کی افادیت پر کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ بفلیاز اور شوپیاں کے درمیان مغل شاہراہ 84کلو میٹر کے قریب ہے جس میں سے بیشتر حصہ کا فی اونچائی پر ہے جہاں موسم سرما کے دوران کافی برفباری ہوتی ہے۔ پیر کی گلی اس شاہراہ کا بلند ترین مقام ہے اور اس کی اونچائی سطح سمندر سے 3505فٹ یعنی 11500فٹ ہے۔سرینگر۔ لداخ قومی شاہراہ پر زوجیلا درہ کی اونچائی اس سے صرف 23میٹر زیادہ یعنی 3528میٹر جبکہ جموں۔ سرینگرقومی شاہراہ پر جواہر ٹنل کی اونچائی اس سے کافی کم 2832میٹر ہے۔ زوجیلا درہ سال میںاب مشکل سے ایک سے دو ماہ بند رہتا ہے اور جموں۔ سرینگرقومی شاہراہ پر بھی برفباری کے دوران کئی کئی دن گاڑیوں کی آمد و رفت بند رہتی ہے۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا کہ مغل روڈ پیر پنچال خطہ کے لئے متبادل شاہراہ کا کام دے گا ، عبث ہے۔گوکہ 2005میں جب اس وقاری پروجیکٹ پر مرکز کی مالی اعانت سے کام شروع کیا گیا تھا ، تب اس کی تکمیل کی تاریخ مارچ 2007مقرر کی گئی تھی لیکن اس کے بعد اس میں کئی بار توسیع کی گئی ا ور آج بھی اس شاہراہ کو مکمل نہیں کہا جا سکتا ہے۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ اگر چہ دسمبر2009میں سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس سڑک پر شوپیاں سے پونچھ تک سفر کرکے باقاعدہ طور اس کے تیار ہونے کا اعلان کیا تاہم جب سے اب تک اس کا رسمی طور افتتاح نہیں ہوپا یا ہے ۔گوکہ عمر عبداللہ کے دور حکومت میں ہی سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ہاتھوں سڑک کا افتتاح کرنے کا پروگرام بھی بنایا گیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بناء پر آخری لمحات میں یہ منصوبہ ترک کیاگیا ۔2010سے اس سڑک پر گرمیوں کے6سے7ماہ کے دوران ٹریفک چلتی ہے تاہم کاغذی طور ابھی بھی یہ شاہراہ افتتاح کی منتظر ہے ۔ فی الوقت جو حالت اس شاہراہ کی بنی ہوئی ہے ،ایسے میں اس کو ’’شاہراہ‘‘قراردینا قطعی طور جائز نہیں ہے بلکہ موجودہ حالت میں یہ ایک موسمی رابطہ سڑک تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔اس سڑک کو پورا سال ٹریفک کی آمدورفت کیلئے کھلا رکھنے کیلئے پیر کی گلی کے مقام پر ٹنل کی تعمیر ناگزیر ہے اور اسی وجہ سے سابق پی ڈی پی ۔بھاجپا سرکار کے دوران باضابطہ طور اس مقام پر ٹنل کی تعمیر کا منصوبہ بنایا بھی گیا تھاتاہم نامعلوم غیبی طاقتوں کی ایماء پر وہ منصوبہ ترک کیاگیا اور آج تک ٹنل کی تعمیر کا خواب تشنہ تعبیر ہے ۔یہ امر اطمینان بخش ہے کہ مغل روڈ نام ترک کرتے ہوئے موجودہ مرکزی سرکار نے اس شاہراہ کو مختلف مرحلوں میں تقسیم کرکے اسے قومی شاہراہ کا درجہ دیا ہے ۔شاہراہ کے راجوری ۔تھنہ منڈی ۔بفلیاز اور راجوری ۔سرنکوٹ ۔بفلیاز حصے قومی شاہراہ قرار دئے جاچکے ہیں جبکہ بفلیاز سے شوپیان اور شوپیان سے سرینگر کے حصے بھی قومی شاہراہ قرار پائے ہیں جس کے نتیجہ میں یقینی طور پر اس شاہراہ کی حالت آنے والے دنوں میں بہتر ہوجائے گی کیونکہ خطہ پیر پنچال میں راجوری ضلع میں راجوری سے دھیرہ گلی تک شاہراہ پر کام چل رہا ہے جبکہ پونچھ ضلع میں پونچھ شاہراہ سے سرنکوٹ اور بفلیاز کی جانب بھی کام شروع ہوچکا ہے تاہم اصل مسئلہ ہنوز جوں کا توں ہے اور وہ ٹنل کی تعمیر ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر وزیر برائے زمینی ٹرانسپورٹ نتن گڈکری نے اپنے حالیہ جموںوکشمیر دورے کے دوران مغل روڈ پر ٹنل تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا وسیع پیمانے پر خیر مقدم کیاگیا تاہم یہ ابھی اعلان تک ہی محدود ہے اور عملی طور کوئی پیش رفت نہیںہوئی ہے کیونکہ اس اعلان کے بعد مرکزی وزارت زمینی ٹرانسپورٹ کی جانب سے اس ضمن میں کوئی رسمی کارروائی شروع نہیں ہوئی۔بلا شبہ قومی شاہراہ بننے سے اس شاہراہ کی حالت بہتر ہوجائے گی لیکن جب تک برفانی علاقہ کیلئے ٹنل تعمیر نہیں ہوگی،یہ شاہراہ ہمہ موسمی نہیں بن سکتی ہے ۔ اگر سرکار واقعی اس شاہراہ کی ہمہ وقت بحالی میں سنجیدہ ہے توپیر کی گلی علاقہ میں ٹنل کی تعمیر میں مزید وقت ضائع نہیں کیاجانا چاہئے تاہم اگر حسب روایت صرف اعلانات کئے جاتے رہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ اصل میں حکومتیں ہی ا س شاہراہ کی ہمہ وقت بحالی کے حق میں نہیں ہے جو عوام کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی ہوگی ۔