مصنوعی ذہانت کا ’گاڈ فادر‘ گوگل سے مستعفی چیٹ بوٹس کےخطرات پر تشویش،اپنے کام پر پچھتاوا

ویب ڈیسک
مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی (اے آئی) کے ’گاڈ فادر‘ سمجھے جانے والے ماہر نے اس کے بڑھتے خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے اپنی ملازمت چھوڑ دی ہے۔
75 سالہ ماہر ٹیکنالوجی جیفری ہنٹن نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ وہ گوگل سے مستعفی ہو گئے ہیں اور انھیں مصنوعی ذہانت کے میدان میں کیے گئے اپنے کام پر پچھتاوا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اے آئی چیٹ بوٹس کے کچھ خطرات ’کافی خوفناک‘ ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’جتنا میں سمجھتا ہوں، اس کے مطابق یہ کہہ سکتا ہوں کہ فی الحال، وہ ہم سے زیادہ ذہین نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ جلد ہی (ہم سے زیادہ ذہین) ہو سکتے ہیں۔‘ڈیپ لرننگ اور اعصابی نیٹ ورکس پر ڈاکٹر ہنٹن کی ابتدائی تحقیق نے چیٹ جی پی ٹی جیسے جدید مصنوعی ذہانت والے نظام کے قیام کے لیے راہ ہموار کی۔
ماہر نفسیات اور کمپیوٹر سائنسدان ہنٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ چیٹ بوٹ جلد ہی انسانی دماغ کی معلومات کی سطح کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’ابھی ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ جی پی ٹی-4 کسی ایک شخص کے پاس موجود علم پر سبقت حاصل کرتا ہے۔ وضاحت دینے کے معاملے میں یہ (ٹیکنالوجی) اتنے آگے نہیں مگر یہ کچھ حد تک ایسا کر سکتی ہے۔‘’اور اس کی ترقی کی شرح کو دیکھتے ہوئے ہم توقع کرتے ہیں کہ چیزیں بہت تیزی سے بہتر ہوں گی۔ لہذا ہمیں اس کے بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔‘نیویارک ٹائمز کے مضمون میں ڈاکٹر ہنٹن نے ’برے عوامل‘ کا حوالہ دیا جو ’بری چیزوں‘ کے لیے اے آئی کا استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔
جب بی بی سی نے اس کے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’یہ صرف بدترین قسم کا منظرنامہ ہے، ایک ڈراؤنے خواب جیسی صورت حال۔‘’مثال کے طور پر آپ تصور کر سکتے ہیں کہ (روسی صدر ولادیمیر) پوتن جیسا کوئی بُرا شخص روبوٹ کو اپنے مقاصد طے کرنے کے لیے استعمال کرے۔‘سائنسدان نے متنبہ کیا کہ ہو سکتا ہے کہ اس سے ایسے ذیلی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں کہ جیسے ’مجھے مزید طاقت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ہنٹن کا کہنا ہے کہ ’میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جس قسم کی ذہانت ہم تیار کر رہے ہیں، وہ ہمارے پاس موجود ذہانت سے بہت مختلف ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا قدرتی نظام ہے اور وہ ڈیجیٹل (مصنوعی) نظام اور سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ ڈیجیٹل سسٹمز کے ساتھ آپ کے پاس اس کی بہت سی کاپیاں ہوتی ہیں، دنیا کا ایک ہی جیسا ماڈل۔‘’اور یہ تمام کاپیاں الگ الگ سیکھ سکتی ہیں لیکن اپنے علم کو فوری طور پر شیئر کر سکتی ہیں۔ تو ایسا لگتا ہے جیسے آپ کے پاس 10,000 لوگ ہوں اور جب بھی کوئی ایک شخص کچھ سیکھتا ہے تو باقی سب کو از خود اس کا پتا چل جاتا ہے اور اس طرح یہ چیٹ بوٹس کسی ایک شخص سے کہیں زیادہ جان سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر ہنٹن نے یہ بھی کہا کہ ان کی ملازمت چھوڑنے کی کئی اور وجوہات بھی تھیں۔’ایک تو یہ کہ میں 75 سال کا ہو گیا ہوں۔ تو اب یہ ریٹائر ہونے کا وقت ہے۔ دوسرا یہ کہ میں در اصل گوگل کے بارے میں کچھ اچھی باتیں کہنا چاہتا ہوں اور اگر میں گوگل کے لیے کام نہیں کرتا ہوں تو یہ باتیں زیادہ قابل اعتبار ہوں گی۔‘
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ گوگل پر تنقید نہیں کرنا چاہتے اور ٹیکنالوجی کی یہ عظیم کمپنی ’بہت ذمہ دار‘ رہی ہے۔گوگل کے چیف سائنسدان جیف ڈین نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم اے آئی کے ذمہ دارانہ طریقہ کار کے بارے میں پرعزم ہیں۔ ہم آنے والے خطرات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جرات مندی کے ساتھ اختراع بھی کر رہے ہیں۔‘