محافظ ِقرآن بنیں قاتل ِقرآن نہیں فکر انگیز

حافظ مجاہد الاسلام
اس دنیا کے سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے کلام کو اپنے سینوں میں محفوظ کیا، دنیا و آخرت میں سب سے خوش نصیب وہ والدین ہیں ،جن کے بچے حافظ قرآن ہیں اور سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کلام پاک کو یاد کر کے بھلا دیا۔ حافظ قرآن ہونا ایک عظیم دولت ہے، چنندہ لوگوں کو ہی اللہ اس کی توفیق دیتا ہے، کتنے ہی فخر کی بات ہے ان لوگوں کے لئے جن کو اللہ نے اپنے کلام کی حفاظت کے لئے چنا ہے، حافظ قرآن کی اہمیت ہرکس و ناکس پر واضح ہے۔ لیکن یہ کام جتنی ذمہ داریوں والا ہے ،حفاظ کرام اس سے اتنی ہی بے وفائی کرتے ہیں۔ صرف قرآن یاد کر لینا کوئی کمال نہیں، اصل کمال اس بات میں ہے کہ کلام پاک کو تاحیات سینے میں محفوظ رکھا جائے، بہت سارے حفاظ ایسے دیکھے ہیں، جنہیں طالب علمی کے دور میں قرآن پختہ یاد تھا لیکن پھر فراغت کے بعد دنیاوی امور میں ایسے اُلجھے کہ سورہ فیل اور سورہ ناس جیسی عام سورتوں میں بھی غلطی کر جاتے ہیں، اہل علم نے قرآن مجید بھول جانے کو کبیرہ گناہ کہا ہے۔

قرآن جس تیزی سے یاد ہوتا ہے، اس کے چھوڑ دینے پر اس سے کہیں تیزی سے نکل جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو موسٰی اشعریؓ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید پڑھتے پڑھاتے، سنتے سناتے رہا کرو۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضہء قدرت میں محمد ؐ کی جان ہے! ذہن سے نکل جانے میں یہ اُس اونٹ سے بھی زیادہ تیز ہے جو رسّی سے بندھا ہوا ہو۔‘‘ (مسلم)حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بہت بُرا ہے کسی کا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا (وہ بھولا نہیں) بلکہ اسے بھلا دیا گیا۔ قرآن مجید کو سنتے سناتے رہا کرو کیونکہ لوگوں کے سینوں سے نکل جانے میں وہ رسّی سے بندھے ہوئے جانوروں سے بھی زیادہ تیز ہے۔‘‘(مسلم)، اسی وجہ سے قرآن یاد کرنے کی بہترین عمر بچپن قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس وقت انسان کا ذہن صاف ہوتا ہے اور بچپن کی یاد کی ہوئی چیزیں انسان جلدی نہیں بھولتا، دیکھا جائے تو کسی بھی عمر میں حفظ کیا جا سکتا ہے، لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا قرآن کو یاد کرلینا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ اسے یاد رکھنا کمال ہے ۔

آج جب حفاظ کرام پر ایک سرسری نظر دوڑاتے ہیں تو اکثر حفاظ دین سے دور دکھائی دیتے ہیں اور قرآن کے ساتھ نعوذبااللہ کھلواڑ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ جن کی ذمہ داری اس کلام کی حفاظت تھی، وہی اس کلام کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ صرف چند ہی ایسے حفاظ ہیں جو اپنے حافظ ہونے کی قدر کرتے ہیں اور اس کی قدر و منزلت کو سمجھتے ہیں، ورنہ اکثریت تو اس کے ساتھ مذاق کرتے ہیں، یقین نہ ہو تو رمضان المبارک میں مساجد کے چکر لگائیے تو آپ کو یہ بات سمجھ آئے گی کہ کس طرح محافظ حملہ آور بنے ہوئے ہیں، نہ قرآن کے حرکات و سکنات کا کوئی خبر ہوتا ہے اور نہ ہی ادغام و اخفاء کا۔ نہ مقتدی سمجھ پاتا ہے اور نہ ہی خود امام۔ تراویح میں قرآن ختم کرنے کے نام پر قرآن کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جاتا ہے ،خدارا وہ ناقابل برداشت ہے۔ لیکن نہ تو عالم دین کوئی تنبیہ کرتا ہے اور نہ ہی مقتدی حضرات، سب کو مطلب تو بس قرآن کے ختم کرنے سے ہے چاہے سمجھ آئے یا نہ آئے۔ جہاں اللہ قرآن مجید میں کہہ رہا ہے کہ ’’ ورتل القرآن ترتیلا ‘‘ قرآن ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کرو (سورۃ المزمل: آیت 4) وہیں یہ حفاظ اس کے برعکس عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عوام تو عوام خود علماء اس قدر بے راہ روی کا شکار ہو چکے ہیں کہ کہیں 6 تو کہیں 10دن تراویح نماز میں قرآن ختم کردیتے ہیں، اور اللہ کے فرمان ’’قرآن ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کرو‘‘کو پوری طرح گول کر جاتے ہیں۔ ذرا خود تصور کریں کہ وہ نماز کیسی نماز ہوتی ہوگی، جس میں اتنی تیزی کے ساتھ پورا قرآن ختم کر دیا جائے؟ افسوس کہ یہ وہی حفاظ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے اسی کلام کی حفاظت کے لئے چنا تھا، جہاں ان کا کام تھا کہ اس قرآن کی مدد سے لوگوں کو صحیح راستے کی طرف بلاتے وہیں یہ حفاظ رمضان میں قرآن کو بیچتے ہوئے نظر آتے ہیں، پیسوں کے اتنے لالچی ہیں کہ 6 دن کا تراویح کہیں پڑھاتے ہیں اور بقیہ دنوں کہیں اور۔ نعوذبااللہ قرآن کا پورا دھندا کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ یہ حلال کمائی ہے، کعبے کے ربّ کی قسم قرآن کی بے حرمتی کر کے کمایا ہوا مال حلال ہو ہی نہیں سکتا۔ خود سوچئے کہ کیا ایسی نمازوں کو اللہ قبول کرے گا جس میں قرآن کی توہین کی جائے۔ جب اللہ کے نبی نے جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن پڑھنے میں جلدبازی سے کام لیا تو اللہ نے تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’آپ ؐ اس ’قرآن‘ کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں ‘‘(سورۃ القیامۃ 16) جب نبی کریم ؐکو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ تیزی سے قرآن کو پڑھیں تو بھلا ان کے اُمتیوں کو کیسے اجازت مل گئی کہ وہ قرآن کی نعوذ باللہ دھجیاں اُڑائیں۔

’’قرآن ٹھہر ٹھہر کر (صاف) پڑھا کرو ‘‘کی تفسیر میں ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ’’رَتِّل‘‘: رتل کسی چیز کی خوبی، آرائش اور بھلائی کو کہتے ہیں اور رتل کے معنی سہولت اور حسن تناسب کے ساتھ کسی کلمہ کو ادا کرنا ہے۔ نیز اس کا معنی خوش آوازی سے پڑھنا یا پڑھنے میں خوش الحانی اور حسن ادائیگی میں حروف کا لحاظ رکھنا اور ہر لفظ کو ٹھہر ٹھہر کر اور الگ الگ کرکے پڑھنا ہے ۔ اس طرح پڑھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر لفظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ انسان اس کے معانی پر غور کرسکتا ہے اور یہ معانی دل میں اُترتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ ام المومنین سیدہ ام سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت تھی کہ آپؐ رات کو نماز پڑھتے، پھر اس قدر سوجاتے جتنی دیر نماز پڑھی تھی۔ پھر اتنی دیر نماز پڑھتے جتنی دیر سوئے تھے، پھر اس کے بعد اتنی دیر سو جاتے جتنی دیر نماز پڑھی تھی یہاں تک کہ صبح ہوجاتی۔ پھر آپ ؐ کی قرأت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرأت جُدا جُدا تھی، حرف حرف کرکے۔ (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب کیف کانت قراۃ النبی ؐ) ۔ سیدہ اُم سلمہؓ سے ہی روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ ؐ اپنی قرأت کو الگ الگ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن پڑھتے، پھر ٹھہر جاتے، پھر الرحمٰنِ الرّحِیْم پڑھتے پھر ٹھہر جاتے پھر مَالک یوم الدِّیْن پڑھتے۔‘‘ (ترمذی۔ ابو اب القرأت عن رسول اللہؐ)

جب آپ ان احادیث کے تناظر میں آج کے حفاظ کو تولیں گے تو آپ کو سمجھ آئے گا کہ نہ تو ان کی قرأت سکون دینے والی ہے اور نہ ہی سمجھ آنے والی ہے۔ پورے سورہ فاتحہ کو ایک سانس میں پڑھ جاتے ہیں، جیسے ان کے اجداد کی کوئی ایری غیری کتاب ہو، اب بھی وقت ہے سدھر جائیں سبھی حفاظ۔ قرآن کی بے حرمتی صرف یہ نہیں کہ نعوذبااللہ کوئی اسے جلا دے یا پھینک دے بلکہ اس کی بے حرمتی یہ بھی ہےکہ اس کے الفاظ و مخارج کو اچھی طرح سے ادا نہ کیا جائے۔ نہ جانے ہمارے ایمان کو کیا ہوگیا ہےکہ جب کوئی عام انسان قرآن کی بے حرمتی کرتا ہے تو ہم آگ بگولہ ہو جاتے ہیں، لیکن جب یہی کام رمضان میں کوئی حافظ قرآن کرتا ہے تو ہم خاموش رہتے ہیں۔ خدارا باز آ جائیں ایسی حرکتوں سے، خود حافظ قرآن بھی اس کا ذمہ دار ہوگا اور مقتدین بھی۔ لہٰذا یہ عہد کریں کہ اب قرآن کی بے حرمتی نہیں ہونے دیں گے، اطمینان سے اور سمجھ سمجھ کر تراویح میں قرآن پڑھوائیں گے اور ان حفاظ کو اپنے مساجد میں ہرگز جگہ نہیں دیں گے جو اس کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
[email protected]>