قرآن کی پیش گوئی اور سائنس کی دنیا؟ سائنس و تحقیق

توصیف رضا
کائنات کی وُسعتوں تک پہنچنے کی جستجو میں مصروف انسان آج تک نظام کائنات کے بارے میں طرح طرح کے مفروضے قائم کرتا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ انہیں تبدیل کرتا آیا ہے۔ زمین ایک ہی ہے یا بہت سی زمینیں (کائناتیں ) ہیں؟۔ اگر ہیں تو کہاں ہے، اس حوالے سے قرآن کریم میں واضح اشارے موجود ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے زمیں اور دنیا صرف یہی نہیں جس میں ہم رہتے ہیں بلکہ زمان و مکان کی اور بھی زمینیں اور دنیائیں موجود ہیں۔ اس حوالے سے آج سائنسدان اسی ’’تھیوری‘‘ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا ہماری دنیا کے سوا اور بھی دنیائیں آباد ہیں؟ وہاں بھی ہمارے جیسے انسان آباد ہیں۔ یا یوں کہہ لیجے کہ وہاں بھی کوئی سعودی عرب، مصر کا کوئی میوزیم اور زیبایش موجود ہے؟۔
مفسر قرآن حضرت ابن عباس ؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے سورہ ’الطلاق‘ کی 12 ویں آیت’’ الله الذي خلق سبع سماوات ومن الأرض مثلهن‘‘ [اللہ وہ ذات ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین جسی زمینیں بھی تخلیق کیں] کی تفسیر پوچھی۔ حضرت ابن عباسؓ خاموش رہے۔ اس شخص نے دوبارہ استفسار کیا اور پوچھا کہ آپ اس کی وضاحت کرنے سے گریز کیوں کر رہے ہیں؟۔ اس پرحضرت انہوں نے کہا کہ اگر میں اس کی تفسیر بتا دوں تو مجھے ڈر ہے کہ تم کفر کے راستے پر چل پڑو گے۔ اس شخص نے اپنے ایمان پر قائم رہنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس پر ابن عباسؓ نے کہا کہ ’’سات زمینوں سے مراد ہماری زمین ہی جیسی سات اور زمینیں موجود ہیں۔ ہر زمین پر ہمارے پیغمبر [محمد صلی اللہ علیہ وسلم] کی طرح رسول آئے ہیں۔ حضرت آدم کی طرح وہاں بھی آدم، نوح کی طرح ان زمینوں پر بھی نوح، ابراہیم خلیل اللہ کی طرح وہاں بھی ابراہیم اور عیسیٰ کی طرح وہاں بھی عیسیٰ مبعوث ہوئے ہیں‘‘۔ روایات کے مطابق سوال پوچھنے والا شخص اپنے ایمان اور اسلام پر قائم رہا اور اس کے بعد اس نے 68 سال مزید زندگی بھی گذاری۔

 

جو سوال آج سے چودہ سو سال پہلے حضرت ابن عباس سے قرآن کی ایک آیت کی تفسیر کی بابت پوچھا گیا تھا ،آج سائنس دان اس کا جواب سائنسی طریقے سے دریافت کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ یورپ میں کام کرنے والے یورپ آرگنائزیشن برائے نیوکلیر ریسرچ یا CERN نامی ادارے نے کچھ عرصہ قبل کائنات کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے 27 کلومیٹر طویل سرنگ میں ’’ہائیڈرون‘‘ کو باہم ٹکرانے کا تجربہ کیا ،جس کے بہت مثبت نتائج سامنے آئے اور سائنس دان اس نتیجے تک پہنچے کہ کائنات کے وجود کو برقرار رکھنے والا ایک ذرہ [ایٹم] ہر کہیں موجود ہے۔ اسی تھیوری کو خدا تعالیٰ کی موجودگی کے معنی میں لیا گیا۔ اسی سرنگ میں ایٹمی پروٹانز کو ٹکرا کر کائنات میں موجود بلیک ہولز کی موجودگی کا تجربہ کیا گیا اور اب وہاں پر ’’متعدد کائناتوں‘‘ کے وجود کا تجربہ ہونے جا رہا ہے۔ یہ تجربہ آج بدھ کو ہونے والا ہے جس سے یہ ثابت ہو گا کہ کیا ہماری زمین کی طرح کائنات میں متوازی دنیائیں بھی ہو سکتی ہیں یا نہیں؟َ

 

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے علاوہ اور بھی کئی معتبر ویب سائٹس کے مطالعے کے مطابق متعدد کائناتوں یا دنیائوں کی موجودگی کی پہلی تھیوری امریکی طبیعات دان ہیو ایفرٹ نے 61 برس قبل پیش کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ پوری کائنات میں صرف ہماری دنیا ہی نہیں بلکہ اور بھی ان گنت دنیائیں آباد ہیں۔ زمان مکان کے اعتبار سے وہاں کے طبعی حالات مختلف ہو سکتے ہیں مگر ان کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حالیہ تحقیقات نے بھی اس مفروضے کو کافی حد تک درست ثابت کرنے میں مدد کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تک کہا جانے لگا ہے کہ دوسری دنیائوں میں بھی براک اوباما ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ وہاں بھی کسی ملک کا صدر ہو بلکہ وہ کسی اسکول کا طلب علم، کسی میوزم کا چوکیدار یا وہاں کے کسی فرضی سعودی عرب کے ہوائی جہاز کا پائلٹ ہو سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے تجربات وتحقیق وجستجو میں مصروف سائنسدانوں میں دو ماہرین ڈاکٹر احمد فرج علی اور ڈکٹر محمد خلیل کا تعلق مصر سے ہے جبکہ ان کے پینل میں کشمیر کے ایک میر فیصل نامی سائنس دان بھی شامل ہیں جو اس وقت کینیڈا کی ’’میرلو‘‘ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ ان سائنس دانوں کے متوازی کائناتوں کے تصور کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’کائنات کا کوئی اول اور آخر نہیں ہے‘‘۔ وہ کائنات کی وسعت پذیری کے تصور کے قائل ہیں، جس کا تصور علامہ اقبال کے ایک شعر’کائنات ابھی ناتمام ہے شاید، آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون‘ میں بھی ملتا ہے۔ ڈاکٹر علی وجود کائنات کے بارے میں مغربی سائنسدانوں کے’’بگ بینگ‘‘ کے تصور کے بھی خلاف ہیں مگر یہ تینوں مسلمان سائنس دان پرامید ہیں ۔آج فرانس اور سوئٹزر لینڈ کی سرحد پر سائنسی غار میں ہونے والے تجربے سے قران کریم کی اسی پیش گوئی کی تصدیق ہو جائے گی کہ کائنات میں ہماری دنیا کی طرح اور بھی متوازی دنیائیں آباد ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب کائنات میں بلیک ہولز، ہماری کہکشاں کی طرح اور کہکشائوں اور ہماری نظام شمسی کی طرح دیگر نظام ہائے شمسی کی موجودگی کے تصورات کو تقویت مل رہی ہے تو بعید نہیں کہ کائنات میں ہماری زمین کی طرح اور بھی زمینیں آباد ہوں۔

 

میں نے یہ مضمون فلکیات کے مطالعے کے دوران حاصل شدہ تحقیق کے نتیجے میں لکھا ہے ۔ اس حوالے سے اپنی آرا دی گئی ای میل پر ارسال کریں۔
[email protected]
�����������������