قدرتی ماحول میں بتدریج بگاڑ،دنیاکے لئے تباہ کُن سائنس و تحقیق

ظفر محی الدین
ماحولیات یا قدرتی ماحول کا مطلب ہے انہیں ماحول، آبی ماحول اور فضائی ماحول، کرہ ارض پر اور اس کے اردگرد جو کچھ ہے وہ قدرتی ماحول کا حصہ ہے، ماحولیات کے مسائل میں کچھ مسائل قدرتی طور پر موسمی تبدیلیوں سے رونما ہوتے ہیں مگر مسائل میں انسانی عمل اور طمع نے بہت سے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔ جس سے کرہ ارض کا قدرتی ماحول بتدریج بگڑتا جا رہا ہے۔ مگر انسان کو اس کی پرواہ نہیں ہے وہ اپنے معمولات اور سرگرمیوں میں محو ہے۔ ماحولیاتی سائنس کے ماہرین، ارضیات داں مسلسل ماحولیات کے مسائل پر بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ لکھ رہے ہیں اور دنیا کو درپیش مسائل خدشات کے الگ الگ مسائل ہیں، مفادات ہیں اور معاشی مسئلے زیادہ اہم ہیں ایسے میں انسان کچھ کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔
جبکہ دنیا کا سیاسی معاشی اور سماجی نظام اس قدر پیچیدہ ہیں کہ کمزور پسپا ہوتا رہا ہے اور طاقت کا بول بالا ہے۔ مگر کھلی سچائی یہ ہے کہ انسانوں کا بنایا ہوا نظام کمزور انسانوں کا استحصال تو کر سکتا ہے مگر قدرت اور قدرتی نظام کا استحصال نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جو کچھ کیا جا رہا ہے قدرتی ماحول اس کا جواب دے رہا ہے۔ قدرتی نظام سے بگاڑ کا نتیجہ بہت تشویشناک ہو سکتا ہے بس اس کی سنجیدگی سے سمجھنا ہو گا کہ زمین کا درجہ حرارت کیوں بڑھ رہا ہے۔ سمندروں کی سطح کیوں بتدریج بلند ہو رہی ہے۔ موسمی تغیرات کے اسباب کیا ہیں۔

سیلاب کیوں اُمڈ رہے ہیں۔ طوفانی بارشیں کیوں تباہی پھیلا رہی ہیں۔ گلوبل وارمنگ کیا کیا ستم ڈھا رہی ہے۔ پہاڑوں پر صدیوں سے جمی برف کیوں پگھل رہی ہے۔ خشک سالی قحط اور وبائی امراض میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے۔ مختصر یہ کہ ان سب سوالوں کے جواب انسان کے پاس ہیں۔ وہ قدرتی آفات اور ماحولیات میں بگاڑ کے اسباب سے بھی آگاہ ہے مگر مسئلہ وہی طمع، مفادات، خواہشات کی تکمیل اور اپنی اپنی اجارہ داریوں کو قائم و دائم رکھنے کی دوڑ اور تگ و دو کا ہے۔ قدرتی ماحول میں بتدریج بگاڑ میں اضافہ کا سب سے اہم مسئلہ دنیا کی آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہے۔ افریقہ براعظم ایشیا اور لاطینی امریکہ کے بیش تر ممالک میں اپنی آبادیوں میں اضافہ پر کوئی کنٹرول نہیں اور نہ ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں اس بڑے انسانی مسئلے کو خاصی اہمیت دیتی ہیں۔

نتیجہ سامنے ہے کہ غریب ممالک جہاں آبادیاں زیادہ ہیں۔ غربت، پسپماندگی، جہالت، مختلف تعصبات اور ناانصافی عام ہیں ان ریاستوں اور معاشروں میں مزید آبادی میں اضافہ کس قدر خوفناک مسئلہ ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ یہ نوشتہ ٔ دیوار ہے۔ مثلاً وسطی افریقی، مشرقی اور مغربی افریقی ممالک اور ان کے پسماندہ معاشروں پر نظر دوڑائیں کہ ان ممالک کے عوام کی اکثریت کو دو وقت کی روٹی، پینے کا پانی بیماروں کو دوائیں نصیب نہیں ہیں۔ بیروزگاری، مہنگائی، جہالت، غربت اور ناانصافی عام ہے۔ تعلیم کی کمی نے معاشروں کو مختلف تعصبات نے گھیرا ہوا ہے۔ مفاد پرست اور رجعت پسند ٹولے عوام کو رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے عنوان سے آپس میں دست و گریباں رکھتے ہیں۔

انسانی تاریخ کا یہ ایک المیہ رہا ہے کہ جب جب کسی قوم نے طاقت، لیاقت اور ثروت حاصل کی اس نے مزید کے لالچ میں اپنی حاکمیت قائم کرنے کے جنون میں دیگر معاشروں کو تباہ و برباد کیا۔ اس کی نمایاں مثال یورپی ممالک میں نشاۃ ثانیہ کی تحریکیں ہیں۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں یورپی اقوام نے احیائے علوم کے بعد اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر اقوام پر اپنی حکمرانی قائم کرکے ان ملکوں کو اپنی نو آبادیات بنا لیا اور ایک طویل عرصے تک برطانوی، فرانسیسی، ہسپانوی، ٭٭٭٭ پرتگیزی اور دیگر نے ایشائی، افریقی اور لاطینی امریکی اقوام کو استحصال کیا ان ملکوں کے قدرتی وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا۔

ان ملکوں کے عوام کو تعلیم، تحقیق جدید علوم سے دور رکھا گیا۔ اس کے بجائے اپنی اپنی نوآبادیات میں ان یورپی ممالک نے مختلف تعصبات کو ہوا دے کر ان معاشروں کو تقسیم کرکے لڑائو اور حکومت کرو کے طریقہ کار پر عمل کیا جس سے آج کے ترقی پذیر معاشرے مزید غربت، پسماندگی اور جہالت کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ پھر ان یورپی طاقتوں نے اپنی اپنی نسل زبان اور مفادات کی خاطر عظیم جنگیں لڑیں اور دنیا کو مزید مسائل میں جھونک دیا۔

بعدازاں انیسویں صدی اور پھر بیسویں صدی کے دو صنعتی انقلاب نے مغربی ممالک کو ترقی، خوشحالی اور استحکام کی نئی حدود سے روشناس کروایا۔ بیسویں صدی میں دو عظیم جنگوں کے بعد یورپی ممالک نے امریکہ کی سرپرستی میں ترقی اور مفادات کی جدوجہد کا ایک نیا دور شروع کیا۔ جس میں ترقی پذیر ممالک مزید گھاٹے میں رہے۔ مگر مغربی ممالک کی طمع بڑھتی جا رہی ہے۔ دیگر ممالک کے قدرتی وسائل کا استحصال نئے نئے طور طریقوں سے جاری رہے۔

دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک کا قدرتی کوئلہ، سویا، تانبا، جیپسم، چاندی، سونا، قدرتی گیس اور تیل مغربی ممالک کے کارخانوں میں ان کی صنعتی ترقی اور پیداوار میں اضافہ کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ ترقی پذیر غریب ممالک مزید پسماندگی، غربت، قرضوں اور دیگر مسائل میں الجھتے جا رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں مغربی طاقتوں کے ہمنوا طبقات ترقی پذیر ملکوں کے استحصال میں مغربی طاقتوں کے لئے اہم ہاتھ ہیں جو ان کا کھاتے اور گاتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک کی مسابقت اور طمع دوسری طرف ترقی پذیر ممالک کی پسماندگی اور کمزور حکمرانی، مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس طرح ہر جانب سے قدرتی ماحول شدید متاثر ہو رہا ہے۔ جیسے دنیا کی سپر پاور امریکہ دنیا کی آلودگی میں ایک چوتھائی کا ذمہ دار ہے۔ اس کے بعد تقریباً امتناہی چین بھی ذمہ دار ہے۔ اس کے بعد بھارت، برازیل، ارجنٹینا، فرانس، برطانیہ، اسپین، پرتگال اور دیگر ممالک ہیں۔ فضائی آلودگی میں گرین ہائوس گیسوں نے قدرتی کوئلہ کا استعمال، گاڑیوں کا دھواں، صنعتی کارخانوں کا دھواں اور دیگر آلات اور بجلی کی اشیاء کا استعمال اور ان میں اضافی آلودگی میں اضافہ کا سبب ہے ۔

آبی آلودگی یا سمندری آلودگی بہت بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے اوزون کی دبیز تہہ متاثر ہوئی۔ جس کی وجہ سے سورج سے خارج ہونے والی الٹرا وائلیٹ شعاعیں یا بالائے بنفشی شعاعیں زمین پر براہ راست پہنچ رہی ہیں جس کی وجہ اوزون کی قدرتی تہہ میں حدت سے پیدا ہونے والا شگاف ہے جس کا پہلا تجربہ آسٹریلیا میں ہوا تھا۔ اس کے بعد دنیا کے تمام ماہرین ماحولیات سمیت سائنس دانوں نے اس طرف توجہ مرکوز کی تب پتہ چلا کہ اس کرہ ارض کو کس قدر شدید خطرہ لاحق ہو رہا ہے تب سب نے سرجوڑ کر کرہ ارض کے قدرتی ماحول کو بہتر بنانے اور اوزون کی تہہ یا غلاف میں پڑنے والے شگاف کو بند کرنے پر غور شروع کر دیا۔

اگر یہ کیا جائے تو شائد غلط نہ ہو گا کہ اوزون میں پیدا ہونے والے شگاف اور آسٹریلیا کے ساحلوں پر غسل آفتابی میں مصروف چند لوگوں کے جسم پر نکل آنے والے دانوں نے پھر ان دانوں کے فوری اثرات نے دنیا کو دم بخود کر دیا۔ اس کے فوری بعد دنیا میں قدرتی ماحول اور کرہ ارض کے تحفظ کے عنوان سے دنیا کی سب سے بڑی کانفرنس میں برازیل میں منعقد ہوئی۔

اس کے بعد قابل ذکر کیوٹو معاہدہ عمل میں آیا۔ بعدازاں مختلف ممالک میں ماحولیات میں سدھار کے لئے کانفرنسیں، سیمینار، لیکچرر ہوتے رہے پھر چند برس قبل پیرس میں دنیا کے سربراہوں کی بڑی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں سو سے زائد ممالک کے سربراہوں، سینکڑوں سائنس دانوں، ماہرین سمیت دیگر شخصیات نے بھی شرکت کی تھی جس میں ایک وسیع تر جامع معاہدہ پر سب نے دستخط کئے ہیں۔ اس حالیہ معاہدہ کی رو سے دنیا کے تمام ممالک، تمام معاشرے اور انسان اس امر کے پابند ہیں کہ وہ فضائی، سمندر، زمینی اور اطراف کے ماحول کو بہتر بنانے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔

مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ باوجود بڑے بڑے عالمی معاہدوں، رپورٹوں اور تشویشناک خبروں کے فضائی آلودگی، سمندری اور آبی آلودگی، زمینی آلودگی میں کوئی نمایاں کمی نظر نہیں آرہی بلکہ حالیہ جائزوں کے مطابق قدرتی ماحول مزید بگڑتا جا رہا ہے۔ حالیہ جائزوں اور رپورٹس میں بھی کہا جا رہا ہے کہ کرہ ارض کے قدرتی ماحول میں اس قدر بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ آئندہ صدی تک اس زمین پر انسانیت کو ناقابل تلافی نقصانات اٹھانے کا خطرہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ انسان کی اپنی کوتاہیاں ہیں، جدید طرز زندگی اور زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا لالچ ہے جس کے لئے وہ ہر حد سے گزرنے کیلئے تیار ہے۔ المیہ یہ کو سائنس دان اور ماہرین جن اشیاء کے استعمال سے منع کرتے رہے اور طرز حیات میں تبدیلی پر زور دیتے رہے مگر انسان نے اس پر قطعی کان نہیں دھرے۔ مثلاً پلاسٹک بیگ کا بڑھتا ہوا استعمال، پلاسٹک کی بوتلوں اور دیگر اشیاء کا بڑھتا ہوا استعمال، اس نوعیت کا دیگر کوڑا کرکٹ جو ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ وہ سب زمین پر یا سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ زراعت میں بعض مضر دوائوں کا استعمال زمینی ماحول اور پانی کو زہرآلود کر رہے ہیں۔ سمندر میں روزانہ دنیا کے ڈیڑھ سو سے زائدممالک اپنا تمام کوڑا کرکٹ سمندر برد کرتے ہیں اور بلین ٹن کوڑا کرکٹ سمندری حیاتیات کو شدید متاثر کر رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ پچاس برسوں میں سمندری حیاتیات کی ہزاروں اقسام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نابود ہو چکی ہیں۔ ماہی گیری کے جدید طریقوں سے روزانہ لاکھوں ٹن مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں۔ مگر کارخانوں، زرعی زمینوں کا آلودہ پانی اور دیگر کوڑا زہریلا مواد جو سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ اس سے مچھلیوں کی بیش تر اقسام نایاب ہو چکی ہیں اور انسان اپنی ان کوتاہیوں سے سمندر سے حاصل ہونے والی قیمتی خوراک کو کم کرتا جا رہا ہے اسی خوراک کو اور دیگر اجناس اور پھلوں کو بھی زہر آلود کرتا جا رہا ہے۔(جاری)