پینسلین سے مائیکرو ویو تک ترقی کی بنیاد بننے والے دلچسپ سائنسی حادثات

علی عباس

آپ اگر مائیکرو ویو اوون کی ایجاد کی اہمیت جاننا چاہتے ہیں تو ان خواتین سے پوچھئے،جو اس ایجاد سے قبل ہمہ وقت پریشان رہا کرتی تھیں۔قدرت مہربان ہوئی،رسوئی گیس آگئی اور پتنی کی مدد کی۔یہ برصغیر ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر گھر کی کہانی ہے۔ یہ امریکی ماہر طبیعات اور موجد پرسی لی بارون سپنسر کی کہانی ہے۔ وہ ان دنوں طبیعات کی ایک شاخ میگنیٹرونز پر کام کر رہے تھے، جن کے ذریعے بہت زیادہ طاقت کی حامل ویکیوم ٹیوبز کی مدد سے مختصر فاصلے تک جانے والی ریڈیو کی لہریں مائیکرو ویوز پیدا ہوتیں۔ سپنسر معمول کے مطابق اپنے تجربات کر رہے تھے جب انہوں نے محسوس کیا کہ انہوں نے اپنی جیب میں جو چاکلیٹ بار رکھی تھی، وہ تو گرم ہو کر پگھل گئی ہے۔ اس وقت فی الفور سپنسر پر یہ ادراک ہوا کہ یہ میگنیٹرونز ہی ہیں جن کی وجہ سے ان کی چاکلیٹ پگھلی اور یوں وہ سال 1945 میں ایک ایسے دھاتی برتن کے پیٹنٹ کے لیے درخواست جمع کروا چکے تھے جو مائیکرو ویوز کی مدد سے کام کرتا تھا۔
مائیکرو ویو اوون ہی ایسی ایجاد نہیں ہے جو حادثاتی طور پر تخلیق ہوئی۔ ایسی بہت سی ایجادات ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش نظر ہے:
مصنوعی مٹھاس : سکارین اگر ایجاد نہ ہوتا تو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مشکلات مزید بڑھ جاتیں جن پر میٹھا کھانے پر اگرچہ پابندی عائد ہے مگر وہ ’جگاڑ‘ لگانے سے باز نہیں آتے۔ سکارین یا مصنوعی مٹھاس نے ان کی یہ مشکل بہت حد تک آسان کر دی ہے جو 1878 میں روسی کیمیا دان کنسٹنٹن فاہلبرگ نے دریافت کی۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ وہ کیمیا کے پروفیسر ایرا ریمزین کی لیبارٹری میں کام کر رہے تھے جب انہوں نے یوں ہی کچھ کیمیکلز کو چکھا جن پر وہ کام کر رہے تھے تو ان کو ادراک ہوا کہ یہ تو مٹھاس سے بھرپور ہیں۔ فاہلبرگ نے کچھ تجربات کے بعد بالآخر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ درحقیقت کچھ کیمیکلز کے ری ایکشن کا اثر ہے جن سے سکارین بنا اور یوں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مصنوعی مٹھاس پیدا کرنے والی گولیوں کی تیاری ممکن ہو سکی۔
پینسلین : سائنس میں ذرا سی بھی دلچسپی رکھنے والے قارئین ڈاکٹر الیگزینڈر فلیمنگ کے نام سے واقف ہوں گے۔ یہ وہ عظیم انسان ہیں جنہوں نے سال 1928 میں دنیا کی پہلی اینٹی بائیوٹک پینسلین دریافت کی۔ انہوں نے جب پینسلین دریافت کی تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انہوں نے طب کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ انہوں نے جراثیموں کو مخصوص پلیٹوں میں گچھوں کی صورت میں رکھ دیا۔ وہ دو ہفتوں بعد جب واپس آئے تو انہوں نے دیکھآ کہ پھپھوندی لگی ہوئی تھی جس نے جراثیموں کو کھا لیا تھا اور یہ سارا کمال پینلسین کا تھا جو آج طب کی اہم ترین دریافت مانی جاتی ہے۔
ایکس رے مشین :اس جدید عہد میں بھی بہت سے لوگ نبض شناس ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، یعنی وہ آپ کا ہاتھ تھامیں گے اور آپ کی نبض کی حرکت سے آپ کی بیماری بتا دیں گے لیکن سائنس ایسے طریقوں پر یقین نہیں رکھتی۔ طبی سائنس میں تشخیص کے لیے مختلف طریقے استعمال ہوتے رہے ہیں لیکن ایکس رے کی ایجاد نے گویا انقلاب برپا کر دیا۔
یہ 8 مئی 1895 کا نسبتاً گرم دن تھا جب ماہر طبیعات ولہیلم رونٹیگن ورزبرگ، جرمنی میں اپنی لیبارٹری میں کارڈبورڈ میں لپٹی ویکیوم ٹیوب پر تجربات کر رہے تھے جب انہوں نے قریب ہی کیمیائی مادوں کی تہہ چڑھی سکرین پر پراسرار روشنی کے ابھرنے کا مشاہدہ کیا۔ وہ تذبذب کا شکار ہو گئے اور انہوں نے روشنی کے اس ابھرنے کو ایکس رے کا نام دیا کیوں کہ وہ اس وقت تک اس کی وجہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ وہ مزید کچھ عرصہ تجربات کرتے رہے اور بالآخر ایک روز انہوں نے اپنا بازو اس روشنی کے سامنے کیا تو جلد کے اس پار ہڈیاں دیکھنے کے قابل ہو گئے اور یوں یہ دنیا کا پہلا ایکس رے قرار پایا۔
کوکا کولا : بات دنیا کے مقبول ترین مشروب کوکا کولا کی ہو اور منہ میں پانی نہ آئے، یہ تو ممکن ہی نہیں لیکن آپ کو بتاتے چلیں کہ اس دریافت کا سہرا ڈاکٹر جان ستتھ پیمبرٹون کے سر بندھتا ہے جو شیف تھے اور نہ ہی ان کا فوڈ انڈسٹری سے کوئی تعلق تھا۔ وہ تو ایک فارماسسٹ تھے جو الکوحل، کوکین اور کیفین کو ملا کر ایک ایسا مشروب بنانے کی جستجو کر رہے تھے جس سے مارفین اور دیگر منشیات استعمال کرنے والوں کا بھلا ہو سکتا جن میں وہ خود بھی شامل تھے لیکن الکوحل کے استعمال پر پابندی کے باعث پیمبرٹون اپنے فارمولے سے الکوحل کو نکالنے پر مجبور ہو گئے تاہم برسوں تک کوکین کا استعمال کیا جاتا رہا اور یوں 1886 میں کوکا کولا کی پہلی بوتل مارکیٹ میں آئی جو آنے والے برسوں میں دنیا کا مقبول ترین مشروب ٹھہرا۔
ماچس : یہ سال 1826 کا قصہ ہے جب کیمیا دان جان والکر نے کچھ ایسا دریافت کیا جو آج ہر گھر کی ضرورت ہے۔ حادثاتی طور پر ہوئی اس ایجاد کی کہانی کچھ یوں ہے کہ انہوں نے ایک تیلی پر کچھ کیمیکلز لگائے اور حادثاتی طور پر اسے اپنے آتش دان سے رگڑا تو اچانک آگ بھڑک اٹھی اور یوں حادثاتی طور پر عہد حاضر کی ماچس ایجاد ہوئی۔
ڈرائی کلیننگ :ڈرائی کلیننگ کے موجد جان بیپٹائسٹ جولی اگرچہ کپڑے کی صنعت سے منسلک تھے مگر انہوں نے کپڑوں کو صاف کرنے کا نیا طریقہ حادثاتی طور پر دریافت ہوا۔ ہوا کچھ یوں کہ جولی کی خادمہ سے حادثاتی طور پر کیروسین لیمپ میزپوش پر گر گیا تو جولی نے مشاہدہ کیا کہ کیروسین نے میزپوش کو صرف صاف ہی نہیں کیا بلکہ اس میں چمک بھی پیدا ہو گئی ہے اور یوں پہلے ڈرائی کلینر کا تصور پیدا ہوا۔