قدرتی ماحول میں بتدریج بگاڑ،انتہائی تباہ کُن سائنس و تحقیق

مظفر محی الدین
حرص اور لالچ جدید طرز زندگی اور خواہشات نے انسان کو اس قدر بے۔ حس بنا دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے حالیہ تحقیقی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال دنیا میں ایک ارب ٹن سے زائد پکی ہوئی خوراک یا کھانا کوڑے کی نذر ہو جاتا ہے۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ ہر فرد سالانہ 74 کلو خوراک کوڑے دان کی نذر کرتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ صرف امیر ممالک میں نہیں ہو رہا ہے۔ بلکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ طرز عمل ہے۔ جبکہ ماہرین حیران ہیں کہ غریب ممالک کروڑوں عوام کم خوراک یا فاقوں کا شکار ہیں۔’’ تاہم بعض ممالک میں غیر سرکاری تنظیموں نے اپنی اپنی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ خوراک کے ضائع ہونے کے عمل کو روکنے یا اس ضائع کردہ کھانے کو استعمال کرنے کے طریقہ کار پر غور کرے تاکہ خوراک ضائع نہ ہو سکے اور غریب افراد میں تقسیم کی جا سکے۔ مگر خدشہ ہے کہ ایسی کسی اسکیم پر عمل نہیں ہو گا۔
بہتر طریقہ یہ ہے کہ گھروں میں کھانا پکانے پر مامور افراد کو یہ آگہی فراہم کی جائے اور انہیں اس پر راضی کیا جائے کہ انسانیت کی خاطر کھانا پکانے میں اعتدال اور ضرورت کا پورا خیال رکھا جائے تاکہ خوراک ضائع نہ ہو سکے۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ دنیا میں بعض کمیونٹیز ایسی بھی ہیں جو کھانا صرف اتنا پکاتی ہیں جتنا ان کے گھروں میں صرف ہوتا ہے وہاں خوراک کو کوڑے دان میں ڈالنا بہت معیوب تصور کیا جاتا ہے بلکہ بعض لوگ اس کو عظیم گناہ بھی قرار دیتے ہیں۔ معروف ماہر ماحولیات ڈاکٹر بروکیر نے کہا تھا کہ آب و ہوا کا نظام کسی ناراض جنگلی جانور جیسا ہے جس کو ہم نے چھیڑ چھاڑ کرکے مزید ناراض کر دیا ہے اگر یہ وتیرہ جاری رہا تو پھر اس جنگلی جانور کی ناراضی اور غصہ ہمیں بہت مہنگا پڑے گا جو نظر آ رہا ہے۔
امریکی خلائی سائنسی ادارے ناسا کے ایک حالیہ جائزہ کے مطابق دنیا میں پینے کے صاف پانی کے ذخائر میں نمایاں کمی آتی جا رہی ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں برفانی پہاڑ اور گلیشئرز ہیں وہاں برف کے پگھلنے کا عمل تیز ہوتا جا رہا ہے۔ شمال بحراوقیانوس میں واقع دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ جو غیر آباد ہے گرین لینڈ اس عظیم جزیرے پر موجود برف کی دبیز تہیں مسلسل سکڑتی ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ قطب شمالی کا بھی یہی حال بتایا جاتا ہے۔ مگر قطب جنوبی میں انٹارکٹیگا کے عظیم برفانی ذخائر بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں ابھی حال ہی میں قطب جنوبی میں عظیم برفانی جزیرہ کی بہت بڑی پٹی میں کئی کلو میٹر طویل شگاف پڑ چکا ہے اور لگتا ہے یہ جزیرہ کا کئی کلو میٹر برفانی خطہ بہہ کر سمندروں میں شامل ہو جائے گا۔ جس سے سمندروں کی سطح میں نمایاں بلندی عدد کر آئے گی یوں بھی سمندروں کی سطح بتدریج بڑھ رہی ہے اور ماہرین کا دعویٰ ہے کہ آئندہ پچاس برسوں میں دنیا کے ایک سو چالیس ساحلی شہر اور چھوٹے جزیرے شدید طور پر متاثر ہو سکتے ہیں جس سے انسانی جانور، اسلامک اور ماحول کو زبردست خطرات لاحق ہوں گے۔
واضح رہے کہ دنیا میں صاف پانی کے بڑے ذخائر میں سب سے بڑا برفانی ذخیرہ ہمالیائی پہاڑوں کا عظیم سلسلہ ہے جو براعظم ایشیا کے جنوب خطہ میں پھیلا ہوا ہے۔ جو چین، بھارت، پاکستان ، نیپال اور بھوٹان کی سرحدوں پر واقع ہے۔ ان پہاڑوں پر جمی صدیوں سے قائم برفیلی چٹانیں اور گلیشئرز اب گلوبل وارمنگ کے اثرات سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں بڑے گلیشئرز کے ٹوٹنے کا واقعہ شمالی بھارتی ریاست میں پیش آیا ایسا ہی واقعہ پاکستان کے شمالی خطے میں بھی وقوع پذیر ہوا ہے۔ جس سے ہر دو جانب بڑے نقصانات ہوئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ بڑے چھوٹے گلیشئرز ٹوٹ چھوٹ کا شکار ہوں گے۔
اس تشویشناک صورتحال کے باوجود بیش تر لوگوں کی رائے میں یہ سب کچھ قدرتی عمل کا حصہ ہے۔ اس دنیا میں صدیوں سے موسم کبھی سرد کبھی گرم اور کبھی تر ہوتا رہا ہے۔ زلزلے، سیلاب، طوفان، آندھیاں، جنگلوں کی آگ سب کچھ ہوتا آیا ہے۔ اس تمام معاملے کو قدرت پر ہی چھوڑ دیا جائے۔ تو مناسب ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامل لوگوں میں ایک سابق امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ اور ان کے ہمنوا بھی شامل ہیں۔
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں بیش تر سائنس دان اور ماہرین اس بات پر یقین رکھتے اور دلائل پیش کرتے ہیں کہ دنیا کے قدرتی ماحول میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں یہ سب کچھ قدرتی سائیکل کا نتیجہ ہے جو صدیوں صدیوں سے جاری رہے مگر بعض تحقیقی ادارے اور ان کے کرتا دھرتا کثیر فنڈز جمع کرنے اور اداروں کے سالانہ بجٹ میں اضافے کے لئے ماحولیات میں بگاڑ، کرہ ارض کو خطرہ ہے اس لئے کرہ ارض کے اور اس کے قدرتی ماحول کے تحفظ کے لئے بڑے پیمانے پر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا مؤقف یہ ہے کہ لوگوں کو ڈرایا نہ جائے معاشروں میں سنسنی نہ پھیلائی جائے۔ اس نقطہ نظر کی حمایت کرنے والے بڑے چھوٹے صنعت کار اپنی پیداوار اور منافع میں اضافہ کے لئے قدرتی ماحول کی پر واہ کئے بغیر اپنے معمولات میں مگن نظر آتے ہیں امیر اور طاقتور ممالک اپنا قدرتی کوئلہ کم استعمال کرتے اور یہ کوئلہ غریب ترقی پذیر ممالک کو فروخت کرکے اپنے ہاتھ جھٹک لیتے ہیں کہ ماحول کو بہتر بنانے اور آلودگی میں اضافہ کو روکنے کے لئے ہم ماحول دوست اقدام کر رہے ہیں۔
سائنس دانوں کی واضح اکثریت گلوبل وارمنگ پر یقین رکھتی ہے۔ ماہرین موسمی تغیرات کی ٹائم مشین دراصل سمندری سطح، فضا میں کاربن کی مقدار، گلیشئرز کے پگھلنے اور کرہ ارض کے درجہ حرارت کو تصور کرتے ہیں۔ تاہم یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان نے اس کرہ ارض کے قدرتی ماحول کو شدید طور پر متاثر کیا ہے۔ جس کے نتائج سامنے آرہے ہیں مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ بیش تر ماہرین اس بات کو تسلیم کرنے سے اب بھی انکاری ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ سائنس دانوں اور ماہرین کے نزدیک کرہ ارض کے قدرتی ماحول میں جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ اس میں پہلا تشویشناک مسئلہ آبادیوں میں بے ہنگم اضافہ ہے۔ مثلاً جنوبی ایشیا، مشرق بعید، افریقی ممالک اور لاطینی امریکی ممالک میں آبادی میں اضافہ کی شرح نسبتاً زیادہ ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کے معاشرے مزید غربت، پسماندگی، جہالت، صحت عامہ کی سہولتوں کے فقدان اور بیروزگاری کا شکار ہیں۔ مزید یہ کہ قدرتی آفات جیسے گلوبل وارمنگ، سیلاب، موسلادھار بارشیں، آندھیاں، طوفان، خشک سالی، پینے کے پانی اور خوراک قلت جیسے مسائل کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔ نسلی، مذہبی اور قبائلی تعصبات اور طرز معاشرتے ان ملکوں کے عوام کو آبادی میں اضافے پر اُکساتے ہیں ان افراد کی نظر میں بڑا خاندان، بڑی برادری اور بڑا قبیلہ ان کے تحفظ کی ضمانت ہوتا ہے۔
اس نوعیت کے واضح نظریات نے آبادی کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ صرف ہندوستان اور چین کی آبادیاں دو ارب ستر کروڑ سے زائد ہے۔ اس کے بعد جنوب مشرقی ایشیا میں بنگلہ دیش، پاکستان، انڈونیشیا، فلپائن اور دیگر ممالک میں بھی آبادیاں زائد ہے۔ براعظم ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک کو آج کے دور اور آئندہ آنے والے ادوار کے بارے میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں قدرتی ماحول میں بگاڑ اور عالمی مفادات کی رسہ کشی کی وجہ سے، عالمی نظام میں ناہمواری کی وجہ سے جو مسائل جنم لے رہے ہیں ان کا سامنا کرنا کے لئے اپنی اپنی معیشوں کو مستحکم بنانے، تعلیم، صحت عامہ اور انتظامی شعبوں کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کریں۔ آج کے انسان کو جدید ٹیکنالوجی کی سہولتیں حاصل ہیں۔ اس سے بھرپور فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے اور معاشروں کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ عصری تقاضوں کی تکمیل کے لئے عصری جدید نظریات کو ملحوظ رکھ کر میں سامنا کیا جا سکتا ہے۔(جاری)
��������������������