’’علمائے کشمیر کی دینی و علمی خدمات‘‘۔ ایک تجزیاتی مطالعہ تبصرہ

عمر فاروق

تاریخ ایک آئینہ ہے۔ایک ایسا آئینہ کہ جس میں ہر قوم اپنی بھلی یا بری تصویر دیکھ سکتی ہے۔اس آئینے پہ اگر کوئی گردو غبار ڈالنے کی کوشش کرے تب بھی کچھ ہی محنت کے بعد اس کی یہ دُھندلاہٹ دور ہوسکتی ہے ۔اگر کوئی تصویر دیکھنے والا اسے اپنے موافق نہ پاکر اس کو ٹکڑوں میں تقسیم کردے یا اسے سِرے سے ہی مٹانے کی سعی کرے تب بھی اس کا بچا ہوا ایک ایک ٹکڑا خود بخود ہر معاملے کی صحیح تصویر ہی دکھائے گا۔
تاریخ کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ اس کے حافظے میں چھوٹے لوگوں کے لئے جگہ ہی نہیں ہے۔یہ ہمیشہ بڑے لوگوں کو ہی یاد رکھتی ہے۔چھوٹے عالموں ،فلسفیوں ،دانشوروں ،سائنسدانوں اور سیاستدانوں کو یاد رکھنا اس کے لئے بہت ہی مشکل ہے۔یہ ہمیشہ ہر میدان کے قائدین اور ائمہ کو ہی یاد رکھتی ہے۔مثال کے طور پر ایک طرف یہ قافلۂ محمدی ؐ میں سے انبیاء ،اصحاب ،صدیقین اور شہداء کو یاد رکھتی ہے تو دوسری طرف لشکرِ بوجہل میں سے فرعون ،نمرود ،ابولہب وغیرہ جیسوں کو ہی یاد رکھ پاتی ہے۔گویا چھوٹے لوگوں کے لئے اس کے حافظے میں یا تو سرے سے جگہ ہی نہیں ہے یا اگر ہے بھی تو بہت ہی کم ۔

 

 

تاریخ افراد اور ان کے رویوں سے تشکیل پاتی ہے۔مگر اس تاریخ کے ساتھ لوگ بڑا ظلم کرتے ہیں جب وہ محض اپنے تعصب یا “پدرم سلطان بود ” کے نشۂ مستانہ میں مست ہوکر اپنے من پسند ” چھوٹوں ” کو دوسروں کے لائق و فائق اور برتر “بڑوں ” کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں ۔بھلا جسے اللہ نے ہی پست قد پیدا کیا ہو ،اسے یوں کھینچ کھینچ کر بڑا کرنے کی سعیِ لاحاصل میں اپنا وقت برباد کرنا چہ معنی دارد ؟۔اسی طرح تاریخ ساز شخصیات کے ساتھ ایک بہت بڑا ظلم جو روا رکھا گیا ہے وہ یہ کہ ان کی تعلیمات کے اصل مغز کو بیان کرنے کے بجائے چھلکوں پہ ہی اکتفاء کیا گیا۔جس کی وجہ سے ہمارے ذہن میں صرف ان کی دھندلی سی ہی تصویر آتی ہے۔

 

 

وطنِ عزیز کشمیر کی بات کریں تو یہاں بھی بے شمار علماء کرام اور اولیاء اللہ کی زندگیوں کو محض معجزوں، کرامتوں اور مافوق البشر صفات سے متصف شخصیات کے طور پر ہی پیش کیا گیا ، جسکی وجہ سے عوام ان کی ان کرامتوں کی سماعت پہ واہ واہ تو کرتی ہے لیکن انہیں ان” نامکمل تذکروں” میں کوئی قابلِ تقلید اور قابلِ عمل بات نظر ہی نہیں آتی۔مگر خدا اپنے ان محبوب بندوں کی تعلیمات پہ پڑا گردا زیادہ دیر تک پڑے رہنے نہیں دیتا بلکہ اپنے خاص بندوں کو ان اولیاء اللہ کی اصل تعلیمات سے عوام الناس کو روشناس کرانے کی توفیق سے نوازتا ہے ۔ان ہی منتخب بندوں میں بلاشبہ کشمیر کے ضلع بڑگام سے تعلق رکھنے والے جناب خاکی محمد فاروق صاحب بھی ہیں جنہوں نے حال ہی میں کم و بیش ۳۷۰ اولیائے کشمیر کی سوانح کو مرتب کرکے “علمائے کشمیر کی دینی و علمی خدمات ” جیسی اعلی علمی ،تحقیقی اور تاریخی کتاب لکھ کر ایک بہت بڑا کارنامہ سر انجام دیا ہے اور یوں نئی نسل کیلئے اپنے درخشاں ماضی جاننے اور پھر اسے حال بنانے کی راہ بھی متعین کی ہے۔یہ کتاب سینڈیکیٹ میڈیا سرینگر نے شائع کی ہے ۔خاکی محمد فاروق صاحب ایک بہترین مصنف ، شعلہ بیان مقرر ،تاریخ دان اور شاعر کی حیثیت سے مانے جاتے ہیں۔ان کی علم دوستی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تا حال ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتب کی تعداد کم و بیش پچیس ہے۔تقریباً پونے چھے سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ۳۷۰ علمائے کرام کے تذکرے سے پہلے مصنف کے فرزند خاکی عمر فاروق صاحب نے کتاب اور صاحب کتاب کا تعارف ہیش کیا ہے۔اس کے بعد تقریظِ اول کے عنوان کے تحت مولانا مفتی اسحاق نازکی صاحب نے فنِ تاریخ کی اہمیت و افادیت پر سیر حاصل بحث کی ہے اور ساتھ ساتھ مصنف کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی ہے۔مدیرِ اعلی ماہنامہ” الحیات ” ڈاکٹر جوہر صاحب قدوسی صاحب نے تقریظِ دُوَم میں علم کی اہمیت پر گفتگو کرکے اس کتاب کا مغز دو جملوں میں بیان کیا ہے۔چنانچہ وہ رقمطراز ہیں “اس کتاب کی سب سے بڑی دو خوبیوں میں (اول ) اسکے متن کا قدیم و جدید کی قید سے آزاد ہونا اور (دوم ) اسکے مضامین کا مسلکی ،مکتبی ،گروہی عصبیت سے بالاتر ہونا شامل ہے” (صفحہ: ۲۷ ) ۔وادیِ کشمیر کے نامور ادیب جناب ڈاکٹر شکیل احمد خان صاحب شفائیؔ نے “حرفِ چند ” کے عنوان سے نفس مضمون کے حوالے سے ایک عالمانہ تحریر رقم فرمائی ہے ،جو انہیں کا خاصہ ہے۔اور اسکے بعد خود فاضل مصنف نے پیش لفظ لکھ کے اس کتاب کے حدودِ اربعہ متعین کئے ہیں۔کتاب کا آغاز فاضل مصنف نے محسنِ کشمیر حضرت عبد الرحمن بلبل شاہ ؒ ترکستانی کے ذکرِ خیر سے کیا ہے تو وہیں اختتام حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے پوتے مولانا نسیم اختر شاہ کشمیری ؒ کے تذکرے سے کیا ہے۔درمیان میں بیسیوں علماء کرام کا تذکرہ آیا ہے۔مصنف نے ہر عالم کی علمی اور عملی زندگی پہ روشنی ڈالی ہے۔ کہیں اجمال سے کام لیا ہے تو کہیں تفصیل سے۔

 

 

اس کتاب کی کئی ایک خصوصیات ہیں۔اولاً یہ کہ اس میں کشمیر کی معلوم اسلامی تاریخ سے لے کر آج تک کے مختلف علماء کا مفصل یا مجمل تذکرہ موجود ہے۔ثانیاً یہ کہ اس میں مسلکی ،گروہی اور مکتبی امتیازات سے بالاتر ہوکر بیسیوں سنی علماء و فضلاء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ثالثاً یہ کہ کتاب میں مذکور اکثر علماء کی تاریخ ولادت ،تاریخ وفات ،القابات ، انکے خاندانی اور تعلیمی پسِ منظر ، ان کی علمی ،عملی اور ادبی خدمات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔رابعاً یہ کہ مصنف نے قاری کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا بھی برمحل جواب دیا ہے ۔مثال کے طور پر جب حضرت عبدالرحمن بلبل شاہ صاحب ؒ ترکستانی کشمیر تشریف لائے تو اس وقت یہاں کا بادشاہ “رینچن شاہ ” تھا جو بودھ مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔تاریخ میں ان دونوں کے مکالمے کا ذکر تو ملتا ہے مگر دورانِ مطالعہ ایک حسّاس قاری کے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ آخر ان دو مختلف زبانیں بولنے والوں نے کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو کی ہوگی؟اس سوال کے جواب میں مصنف خود رقمطراز ہیں کہ ” یہاں یہ امر قابلِ غور ہے کہ حضرت بلبل شاہ ؒ کی زبان فارسی اور عربی تھی ۔جبکہ رینچن شاہ کی تبتی ،اس لیے اس تاریخ ساز گفتگو میں ترجمان کی ذمہ داری شاہ میر نے انجام دی ہوگی۔کیوں کہ یہی ایک شخص تھا جو اس وقت یہاں فارسی ،کشمیری اور تبتی زبانیں جاننے والا تھا ” ( صفحہ : ۴۱)۔خامساً یہ کہ مصنف نے ہر بات باحوالہ لکھی ہے۔سادساً یہ کہ انہوں نے جگہ جگہ مفید حاشیے لکھ کر کتاب کی افادیت میں اضافہ کیا ہے ۔مثال کے طور پر صفحہ ۱۲۴ پر جو لفظِ گنائی کی تحقیق میں مصنف نے بہت مفید حاشیہ لکھا ہے ،مجھے امید ہے کہ اس کو پڑھنے کے بعد بہت سے لوگ احساسِ کمتری سے باہر آئیں گے اور بہت سوں کو اپنے رویوں پہ نظر ثانی کرنی پڑے گی۔سابعاً یہ کہ مصنف نے علماء و اولیاء سے منسوب غیر شرعی واقعات سے کلی طور پر اجتناب کیا ہے۔اور اسکے مقابلے میں ان کی ان صفات کو جگہ دی ہے جنہیں عموماً نظر انداز کیا جاتا ہے ۔مصنف نے بابا نصیب الدین غازی ؒ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ ان کی مختلف مقامات پر تعمیر کردہ مساجد کی تعداد بارہ سو سے زائد ہے۔اسی طرح انکے متعلق خاکی صاحب لکھتے ہیں کہ ” بابا نصیب الدین ؒ کے بارے میں آیا کہ وہ جہاں بھی جاتے وہاں غسل خانے ،بیت الخلاء اور مسافر خانے بنواتے،سایہ دار درخت لگواتے تھے۔اسی طرح ان کے ساتھی بھی کرتے تھے۔بابا عبد اللہ گزریالی نے زوجیلا پہاڑ پر ایک مسافر خانہ بنایا ۔(صفحہ : ۱٦٣ ).اسی طرح حضرت شیخ نور الدین ولی ؒ کا ذکر کرتے وقت انہوں نے ان کی زندگی کے مختلف ادوار کا ذکر کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ تیس سال کی عمر میں انہوں نے غار نشینی اور ترکِ دنیا کو چھوڑ دیا۔اسکے بعد مصنف لکھتے ہیں کہ ” حضرت شیخ العالم ؒ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے ریشیت کو اسلام کے رنگ میں رنگ دیا۔(صفحہ _ ۷۸)۔اولیائے کرام سے محبت کا دم بھرنے والوں کیلئے ان واقعات میں سبق بھی ہے اور عبرت بھی کہ کیا وہ ان کی اصل تعلیمات کو آگے لے رہے ہیں یا حکیم الامت علامہ اقبال ؒ کے الفاظ میں محض اپنے اسلاف کے مدفن بیچ کھاتے ہیں۔اسی طرح متعدد مقامات پر مصنف نے اولیاء اللہ کے مختلف کارناموں کا تذکرہ کیا ہے جس سے اصل تقویٰ کے لوازمات سمجھ میں آتے ہیں۔ انہوں نے ان علماء کی تصنیفات کا بھی ذکر کیا ہے ۔مثال کے طور پر مصنف نے صرف حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒ کی ایک سو چودہ کتابوں کا تعارف کرایا ہے۔سابعاً یہ کہ ان علماء و اولیاء کے تذکروں سے ان کے باہم مشترک صفات عالیہ سے بھی آگہی حاصل ہوتی ہے۔جیسے ان میں سے اکثر کی تربیت گھر سے ہی شروع ہوئی،وہ اپنی اخلاقی اور روحانی تربیت کیلئے کسی شیخ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے تھے،سیاحت بھی انکی زندگیوں کا اہم حصہ تھا۔ یہ کتاب اس تارِ عنکبوت سے بھی نازک تصور کی بھی نفی کرتی ہے کہ حکومت کا دین کی ترویج میں کیا کام ؟مصنف نے کتاب کے آخر میں کشمیر کی تاریخ پہ لکھی گئی دسیوں کتابوں کی فہرست جمع کی ہے ،جو تاریخِ کشمیر کے حوالے سے مصادر ،منابع اور مآخذ کا درجہ رکھتی ہیں۔

 

 

تاہم اس میں کچھ تسامحات بھی در آئی ہیں ، جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔مصنف کی تحریر’’تعارف‘‘میں کئی غلطیاں ہیں،کتاب میں شیعہ علماء کو یکسر طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ کتاب خواتین علماء کے تذکرے سے خالی ہے، ایک بھی خاتون کو اس کتاب میں جگہ نہیں ملی ہے۔صرف ایک جگہ صفحہ ۳٦٣ پر گل محمد بادشاہ کی دو صاحبزادیوں کا تذکرہ آیا ہے۔ کتاب کو مختلف ابواب میں تقسیم نہیں کیا گیا ہے۔کچھ تاریخ ساز شخصیات کا بھی تذکرہ نہیں آیا ہے۔سو بات کی ایک بات کہ میں نے اس کتاب کو بہت ہی مفید پایا۔مجھے قوی امید ہے کہ اس کتاب کو مقبول عام حاصل ہوگا۔ان شاءاللہ
<[email protected]>