ضیاء الحق مینیجر

انسان کے وہ اوصاف جو اسے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کرتے ہیں ان میںخدا ترسی، حق شناسی ، ایمانداری، وفاداری اور احساس ذمہ داری کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔یہ خوبیاں کسی کی میراث نہیں ہوتیں۔ ان اوصاف سے متصف ہونے کے لئے نہ عمرکی کوئی قید ہے اورنہ ہی خاندانی عظمت درکار ہے۔ اللہ رب العزت جسے چاہتاہے؛ ان  صفات سے نوازدیتاہے۔مجھے 2006سے 2010ء تک ماہنامہ ’ماہ نور‘دہلی کی ادارت کے فرائض انجام دینے کاموقع ملا۔ دفتر میں ضیاء الحق نامی ایک کم سن لڑکے کو’ آفس بوائے‘ کی حیثیت سے رکھا گیا تھا، اس کے چہرے پرپھیلی معصومیت  اور اداسی اس کے یتیم ہونے کااعلان کرتی تھی ۔غربت و افلاس کے سبب اس کی صحت اپنے فطری نشو ونما سے محروم تھی، منحنی بدن، سیاہ گھنگھریلے بال، سانولارنگ، کشادہ پیشانی، آنکھوں میں نورانی چمک، قدعمرکے اعتبارسے نسبتاً چھوٹالیکن ہمت اور حوصلہ جوان، چہرے پر فطری مسکراہٹ، آوازمیں بلا کی شیرینی، اس کی باتیں کانوں میں رس گھولتیں، اس طرح اس کے پورے وجودسے معصومیت ٹپکتی۔چودہ پندرہ سال کی ادھ کچری عمر، ناتجربہ کار اورناتواں کندھے پرذمہ داریوں کابھاری بوجھ، نہ کسی کی سر پرستی نہ کسی کا آسرا۔اپنی بوڑھی ماں اور تین بڑی بہنوں کا واحد سہارا! وقت کے تھپیڑوں نے اسے نوعمری میں ہی عزم کاکوہ گراں اوربالغ نظر بنادیاتھا۔ ماہ نورپبلی کیشن، دہلی کے ڈائریکٹرمولاناسیدابوالحسن نے پڑھائی کاسلسلہ جاری رکھنے کے لئے اسے یہاں بلایاتھااورمجھے اس کے دیکھ ریکھ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ یہ سن 2008ء کاواقعہ ہے۔ اس نوعمرلڑکے نے پڑھائی کے علاوہ دفتری امورمیں بھی ہاتھ بٹاناشروع کردیا۔ وہ بے حد خوددارطبیعت کامالک تھا، اسی لئے احسان کابدلہ چکاناچاہتاہوگا۔ شایداس کے ذہن میں یہ بات بھی گردش کررہی ہو کہ پڑھائی کے اخراجات تو بغیر کام کئے ہیپورے ہو جائیں گے لیکن اہل خانہ کی کفالت کے لئے اسے اضافی محنت کرنی ہوگی۔
اس نوواردلڑکے کی خوبیوں، خصلتوں، عادتوں، طورطریق، رکھ رکھاؤاور اخلاص و محبت نے میرے ذہن ودماغ پرجادوسااثرکیا۔میں اپنے چیمبرکے شفاف (ٹرانسپیرنٹ) شیشے پرلگے سفیدباریک پردے کوہٹائے بغیرباہرکی تمام حرکات وسکنات پرآسانی سے نظررکھ سکتاتھا۔پبلی کیشن کے بیرونی حصے میں کتب، رسائل وجرائداوردیگراشیاء خریدوفروخت اور حساب کتاب کے دستاویزرکھنے کاانتظام تھا۔ کئی تجربہ کار، تیزطرارملازمین دفتر میں موجود تھے، لیکن ہماری توجہ کا مرکز ضیاء الحق ہی تھا۔ میں اس کی سرگرمیوں پرنہ صرف نظر رکھتا بلکہ اس کے کام کرنے کے طریقے اور وقت کی پابندی از حد متاثر کرتی۔ یہ اس کی مقناطیسی طاقت تھی جومیری توجہ کامرکزبنی ہوئی تھی۔ بظاہر وہ ایک بچہ تھا لیکن بچوں والی حرکت سے کوسوں دور، شاید وقت نے قبل از وقت اسے سنجیدہ اور ذمہ دار بنا دیا تھا۔ صاف صفائی، کتابوں، رسالوں اور دیگراشیاء کو قرینے سے رکھنے کے بعد وہ چپکے سے اپنی کتاب کھولتااورپڑھائی میں مصروف ہوجاتا۔ میں عام طورپر صبح دس بجے کے آس پاس دفترآتا،لیکن میری آمدسے قبل تینوں دکانوں کے ہر حصے کواچھی طرح صاف ستھراکرکے تمام اشیاء کوقرینے سے سجاکراپنی پڑھائی میں مشغول ہوجاتا۔میری آمدکی آہٹ پاکردیگرماتحت افراد مصنوعی مصروفیت کااحساس دلانے کی کوشش کرتے لیکن یہ لڑکااپنی جگہ کھڑے ہوکرپوری طمانیت قلب کے ساتھ سلام کرتا۔ مجھے اپنے آپ احساس ہوجاتاکہ اس نے اپنے حصے سے زیادہ کاکام کرلیاہے، اسی لئے پوری طرح مطمئن ہے۔ یہ روزکامعمول تھا۔ایک طرف حصول علم میں اس کی محنت، لگن اورجدوجہدنے اس کے تئیں ہمدردی کاجذبہ پیداکیاتودوسری طرف دفتری کاموں میں اس کی دلچسپی نے مجھے اس کے لئے آگے سفارش کرنے پر مجبور کردیا۔ عمرکے اعتبارسے اسے کبھی رسالوں پرقارئین کے پتے چسپاں کرنے، توکبھی چائے پانی وغیرہ لانے کے لئے کہاجاتا۔چھوٹے موٹے کام وہ بناکہے کردیاکرتاتھا۔جوبھی کام دیاجاتااسے محنت اورلگن سے کرتا۔ بہانے بازی، دروغ گوئی، دھوکہ دہی، کٹ حجتی اورغیراخلاقی حرکتوں سے اسے دورکابھی واسطہ نہ تھا۔جھنجھلاہٹ، تصنع،ریاکاری، مصنوعی ٹھکاوٹ اورچہرے پرشکن تومیں نے کبھی دیکھاہی نہیں۔ کسی کام کے لئے’نہ کہنا‘ اس کے وصف کاحصہ  نہیں تھا۔ نمازپنج گانہ کاپابند، نظافت وپاکیزگی کا عادی، مثبت سوچ کامالک اورایماندارتھا؛اسی لئے آہستہ آہستہ اس پرمیرااعتمادبڑھتاگیا۔
مو لاناسیدابوالحسن برطانیہ میں رہتے تھے اوررسالے سے لے کرپبلی کیشن اورمالی امورکی تمام ذمہ داریاں میرے کندھے پرتھیں۔ ڈائریکٹرکے اعتماد پر کھرا اترنا میرے لئے ایک چیلنج تھا۔ آس پاس چھل کپٹ کے عادی افرادکاہالہ تھا۔ چنانچہ کسی کوقصوروارقراردینے سے بہترصورت یہ تھی کہ خاموشی سے ایک شخص کاانتخاب کرکے اس پربھروسہ کرناشروع کردیاجائے۔ اس کے لئے ضیاء الحق سے بہترمجھے کوئی نظرنہیں آیا۔کمسن  لڑکے کواپناشریک کاربناناگرچہ جوکھم بھراقدم تھالیکن اتنایقین تھاکہ قدرت نے اسے جوصلاحیتیں دی تھیں؛ ان کی بنیادپروہ ہرکام سلیقے، ایمانداری اورمحنت سے کر لے گا۔ رفتہ رفتہ اس نے کمپیوٹرچلانابھی سیکھ لیا، اکاؤنٹنسی بھی سیکھ لی، کتابوں اوررسالوں کی طباعت واشاعت کے کام میں بھی مہارت حاصل کرلی، یہاں تک کہ صارفین سے معاملات طے کرنے کاسلیقہ بھی اسے آگیا۔ پھرکیاتھا! ’سرکولیشن منیجر‘کی حیثیت سے اس کانام ’ماہ نور‘ رسالہ پرشائع کیاجانے لگااورگاہکوں سے رابطے کی ذمہ داری بھی اسے دے دی گئی۔ اللہ کاوہ بندہ ان تمام ذمہ داریوں کو بڑی خوبی اور اعتماد سے نبھاتارہا۔ نتیجتاً وہ میرااورڈائریکٹرصاحب کامنظور نظر بن گیا اوراس کی ماہانہ تنخواہ مقررکردی گئی۔ماہانہ آمدنی کی مسرت کااندازہ اس کے افسردہ چہرے پرآئی بشاشت سے بخوبی لگایاجاسکتاتھا۔ گویااس کی مرادپوری ہوگئی۔ اب اسے یقین ہوچلاتھاکہ وہ بوڑھی ماں اورتین بڑی بہنوں کے پیٹ کی آگ بجھانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ ایک مفلوک الحال یتیم بچے کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی، جسے اس نے اپنی ایمانداری، وفاداری، محنت، لگن اورمثبت فکرکے ذریعہ حاصل کی تھی۔ یہاں آکر پہلے ہی سال اس نے ہائی اسکول کاامتحان دیااوراس میں کامیابی حاصل کی۔ خالی وقت میں مجھ سے کورس کی کتابیں پڑھتا۔ میرے اوراس کے درمیان استاذاورشاگردی کارشتہ قائم ہوگیا، جسے اس نے زندگی کے آخری ایام تک نبھایا۔حالانکہ میں اسے ہمیشہ اپناچھوٹابھائی سمجھتارہااوروہ مجھے اپنااستاذاورمحسن۔میں نے کبھی تصور نہیں کیاتھاکہ جس بچے کی تربیت میری دیکھ ریکھ میں ہوئی؛اس کے انتقال کے بعداس کی یادوں کوسمیٹنے کی کوشش کروں گا۔ ہاں! میں اس کی یادوں کوسمیٹتاجارہاہوں اور آنکھوں میں ساون بھادوامنڈتاآرہا ہے۔ اس نے کبھی تھکنے یارکنے کانام نہیں لیا۔ تعلیم کاسلسلہ جاری رکھا،گریجویشن کی ڈگری حاصل کی، پبلی کیشن کے جملہ پیچ وخم سے واقفیت حاصل کی، حساب کتاب کافن سیکھااورسب سے زیادہ اس نے ایک اچھاانسان بننے کاہنرسیکھ لیا تھا۔
ابھی ’ماہ نور‘ میں ادارت کے چندبرس ہی گزرے تھے کہ میرے ذہن میں مزیدآگے بڑھنے اور بڑے اداروں میں اعلیٰ منصب پرکام کرنے کی خواہش انگڑائیاں لینے لگی۔ قسمت نے ساتھ دیا۔ پہلے روزنامہ ’ہماراسماج‘، دہلی کے ایڈیٹر،اس کے بعد روزنامہ ’انقلاب‘دہلی کے ملٹی ایڈیشنزکے’ایڈیٹوریل انچارج‘ کے طورپرمیری تقرری ہوگئی۔ گرچہ ’ماہ نور‘سے بھی رشتہ قائم رہالیکن وہاں وقت دینے سے قاصرتھا۔نئی کمپنی میں اعلیٰ عہدہ پرفائزہونے کی وجہ سے رسالے سے بحیثیت ’ایڈیٹر‘نام ہٹانے کادباؤ بڑھتاگیا اور مجبور ہوکربوجھل من کے ساتھ ڈائریکٹرکونام ہٹانے کی درخواست دینی پڑی۔ اس کے بعد یکے بعددیگرے متعددافرادکو اعزازی ایڈیٹریاسب ایڈیٹربناکرماہ نور کی ایڈیٹنگ کاکام لیا جاتا رہا، البتہ طباعت واشاعت اورسرکلیشن کے علاوہ تمام متعلقہ امورکی ذمہ داری ضیاء الحق کے کندھے پرآگئی۔ اس نے بھی ہمت نہیں ہاری، خوش دلی کے ساتھ ان اہم ذمہ داریوں کو بحسن وخوبی ادا کیا۔یہاں تک کہ ایک وقت ایساآیاجب وہ ’ضیاء الحق منیجر‘ کے نام سے مشہورہوگیا۔مٹیامحل دہلی کے’اردوبازار‘میں اسے قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھاجانے لگا۔ ایک ایماندارمنیجرکے طورپراس کی شناخت قائم ہوگئی۔ اب وہ ایک نوعمرلڑکانہیں بلکہ تجربہ کارمنیجرتھا۔
ابھی چندہی برس گزرے تھے کہ پبلی کیشن کے لئے حالات ناسازگارہوگئے اوررسالہ بندکرکے کتابوں کی اشاعت کاسلسلہ موقوف کردیاگیا۔ پبلی کیشن کادفتردہلی سے غازی پورمنتقل کردیاگیا۔ جتنے ملازمین تھے وہ سب دوسری جگہوں پر چلے گئے، لیکن ضیاء الحق منیجراپنے مقام پر قائم رہے اورآخری سانس تک اس کی وہ جگہ برقراررہی۔ بس کام کی نوعیت بدل گئی۔ اس کی محنت، ایمانداری، دیانت داری، وفاداری، کام کے تئیںلگاؤ، خلوص، محبت، معصومیت اور بہت ساری خوبیوںکی وجہ سے اس میں مزیدپائیداری آگئی تھی۔ رسالہ بندہوچکاتھا، کتابوں کی اشاعت کاسلسلہ پوری طرح موقوف ہوچکاتھا، آمدنی کے ذرائع بھی منقطع ہوچکے تھے لیکن ضیاء الحق منیجر کی ملازمت پہلے کی طرح محفوظ تھی، بلکہ اس میں مزیدپائیداری آچکی تھی۔اعتمادکاایک لامتناہی سلسلہ تھاجوقائم ہوچکاتھا۔ اس کی قلندرانہ صفت نے ڈائریکٹرکے ذہن ودماغ پرجادوئی اثرکیا۔اس کی نیک خصلت نے آہستہ آہستہ ان کے گھرکاایک فردبنادیا۔ اب اس کے ذمہ برطانیہ میں مقیم مولاناسیدابوالحسن کے انتہائی اہم کاموں کوہندوستان میں انجام دیناتھا۔ ’یک درگیر، محکم گیر‘ کے حکیمانہ قول پروہ قائم رہا۔اس کانتیجہ یہ سامنے آیاکہ اس نے بحسن وخوبی اپنے بل بوتے تین بڑی بہنوں کی شادی کی، گھرکوسجایاسنوارا، ماں کی کفالت کی اور رشتہء ازدواج سے منسلک ہوکرایک باوقارشوہربننے میں کامیاب ہوگیا۔دوکمسن بچوں کاباپ، بوڑھی ماں کاواحدسہارا، جوان خاتون کاشوہر، تین بڑی بہنوں کاچھوٹابھائی،مولانا سیدابوالحسن کے گھرکاایک فرد، میرا عزیز، بہتوں کاچہیتااور بہت سی خوبیوں کامالک ایک ستودہ صفات ستائیس سالہ نوجوان اس وقت لکھنؤ کے ایک اسپتال میں زندگی کی جنگ ہارگیاجب اسے بخارکی شکایت کے بعد شکم میں عارض بیماری کی وجہ سے ایڈمٹ کرایاگیاتھا۔ وہ اسپتال میں ایڈمٹ نہیں ہوناچاہتاتھا۔اس کاکہناتھاکہ ان دنوں اسپتالوں میں کثرت سے اموات ہورہی ہیں۔ یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ وبائی مرض کوڈ19کے دورپرفتن میں لوگ اسپتالوں میں ایڈمٹ ہونے سے خائف  نظرآرہے ہیں۔اس طرح کا ایک مفروضہ قائم ہوچکاہے کہ جواسپتال جاتے ہیںوہ کم ہی واپس آتے ہیں۔اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بھی زندہ گھرنہیں لوٹ سکا۔مومن وبائی مرض کاشکارہوتاہے تواسے شہیدکہاجاتاہے۔ اگرسچ مچ ایساہے تواسے شہادت نصیب ہوئی۔وہ اپنی ماں کے لئے ہمیشہ علماء کرام سے دعائیں کراتاتھا۔ مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کاانتقال ہواتوفرشتے ان کے پاس حاضرہوئے اورکہا، ’’اے موسیٰ!اب سنبھل کر چلنا۔ تمہارے لئے ہروقت دعاؤں کاہاتھ اٹھائے رکھنے والی تمہاری ماں اب اس دنیامیں نہیں رہی‘‘۔ میں کہتاہوں، ’’اے ضیاء الحق منیجرکی دکھیاری ماں!آپ کے لئے خاصان خداسے دعاؤں کی درخواست کرنے والاآپ کاہردل عزیزلاڈلااب دنیامیں نہیں رہا۔اب آپ کوبھی سنبھل کرچلناہوگا۔آپ کابیٹاہم جیسے نہ جانے کتنوں کویہ سبق سیکھاگیاکہ صداقت، شرافت، محنت، ایمانداری،خوداری، وفاداری اور ذمہ داری سے بہت کچھ حاصل کیاجاسکتاہے اورلوگوں کے دلوں میں حکومت کی جاسکتی ہے‘‘۔
ضیاء! اب یہ دنیا شاید تمہارے لائق نہیں رہی۔اسی لیے اللہ نے قبل از وقت جنت مکانی بنا دیا۔
(خاکہ نگار ایم ایم وی، بنارس ہندویونیورسٹی،وارانسی، اترپردیش کے شعبہ اردو میں اسسٹنٹ پروفیسرہیں )