صحافت کی بدلتی ہیئت سوشل میڈیاتاثیرگذار صحافی نہیں ہو سکتا لیکن صحافی تاثیر گذار ہو سکتا ہے

سجاد بزاز

 

ایک عرصے کے دوران 03 مئی کو منائے جانے والے عالمی یوم صحافت نے عوام کی توجہ حاصل کی ہے۔ گو کہ یہ دن آزادی صحافت کی اہمیت کا مظہر ہے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کی بے مثال ترقی اور آزاد میڈیا کے ابھرنے سے معلومات کی غیر محدود اور غیر فلٹرڈ ترسیل کی حوصلہ افزائی نے صحافیوں کو درپیش مسائل کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

دراصل نام نہاد سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں کی ایک نسل (جنہیں عرف عام میں فیس بک صحافی کہا جاتا ہے) سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا بے دریغ غلط استعمال کرنے اور صحافتی اخلاقیات کوبالائے طاق رکھ کر معاشروں میں بدامنی اور بے چینی پھیلانے کیلئے بحث کا موضوع بن چکے ہیں۔ اس عمل نے پیشہ ورانہ طور پر اہل صحافی برادری کو دیوار سے لگا دیا ہے کیونکہ ‘فیس بک صحافی’ کا اثر معاشروں پر متعدد طریقوں سے بڑھ رہا ہے۔

بحث کے عین موضوع پر آنے سے پہلے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بارے میں اہم اعدادوشمار شیئر کرتا ہوں۔ یہ نہ صرف سائز میں بڑھ رہا ہے بلکہ اس کی اہمیت بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔پچھلی دہائی کے دوران ہم نے سوشل میڈیا کی اہمیت میں تیزی سے اضافہ دیکھا ہے۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق’’2023 میں عالمی سوشل میڈیا صارفین کی متوقع تعداد 4.89 بلین ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 6.5 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتی ہے‘‘۔

ایک سروے سے پتا چلا ہے کہ لوگ اپنی فیصلہ سازی میں تعاون تلاش کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا استعمال کررہے ہیں۔اس کے علاوہ وہ خود کو دنیا بھر میں عام طور پر اور خاص طور پر اپنے ارد گرد حقیقی وقت میں تازہ ترین واقعات کے بارے میں اپ ڈیٹ کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم سماجی تبدیلی کے ایک طاقتور ایجنٹ کے طور پر ابھرا ہے۔اسکے علاوہ یہ پلیٹ فارم سوشل میڈیا انفلنسرز (social media influencers) کی زرخیز جائے پیدائش ثابت ہورہا ہے، جن کی تعداد بتدریج بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔

ان سوشل میڈیا انفلنسرز (social media influencers)کی ایک الگ جگہ میں ایک وسیع فالوونگ ہے جن کے ساتھ وہ سرگرمی سے انگیج کرتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے سوشل میڈیا سامعین کے درمیان ایک مخصوص موضوع پر علم اور مہارت کیلئے اپنی ساکھ بناتے ہیں۔

وہ اپنے پسندیدہ سوشل میڈیا چینلوں پر اپنی پسند کا باقاعدہ مواد اپ لوڈ کرنے کے عادی ہوچکے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کیا جا سکے اور ان کے خیالات پر ان لوگوں کی توجہ مرکوز کی جا سکے۔ ان سوشل میڈیا انفلنسرز (social media influencers) نے پہلے ہی متعدد برانڈز کو متاثر کیا ہے اور وہ انہیں اپنی مصنوعات اور خدمات کی مارکیٹنگ کیلئے استعمال کررہے ہیں۔

ان سوشل میڈیا انفلنسرز (social media influencers)کی ا پنے زمرے ہیں۔ دوسرے لفظوں میںان کی متعدد طریقوں سے درجہ بندی کی جا سکتی ہے، جیسے کہ پیروکاروں کی تعداد، مواد کی اقسام اور اثر و رسوخ کی سطح ۔ یقینا یوٹیوبرز، بلاگرز اور پوڈکاسٹرز بھی سوشل میڈیا انفلنسرز (social media influencers) کے مجموعی زمرے میں آتے ہیں۔

کیا یہ سوشل میڈیا انفلنسرز(social media influencers) حقیقی معنوں میںصحافی کہلانے کے اہل ہیں؟ سوشل میڈیا چینلوں پر خودساختہ صحافیوں کے طور پر لوگوں کی بڑے پیمانے پرموجودگی نے نہ صرف صحافیوں کی حقیقی پیشہ ورانہ نسل کی ساکھ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے بلکہ اس نے مجموعی طور پر اس پیشے کی شرافت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔

اُن خود ساختہ صحافیوں کو حاصل آزادی اظہار رائے کی وجہ سے اس عظیم پیشے پر عوام کا اعتماد تیزی سے کم ہو رہا ہے جو خود کو ڈھٹائی سے رپورٹر، ایڈیٹر اور ہر چیز کے ماہر کے طور پر متعارف کرارہے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ نام نہاد صحافی سوشل میڈیا چینلوں کا غلط استعمال کرتے ہیں جہاں وہ زیادہ تر وقت اداروں، طبقات ، معاشروں اور افراد کو بدنام کرنے کیلئے تیر بہ ہدف مہم چلاتے ہیں اور یہ سلسلہ حکام کی ناک کے نیچے بلا روک ٹوک جاری ہے۔ ان کی سرگرمیاں وسیع ہیں اور حقیقی پیشہ ور صحافیوں پر بھاری پڑی ہیں۔

اس ڈیجیٹل دور میں جہاں دنیا حقیقی معنوں میں ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے، معلومات کا بہاؤ بجلی کی رفتار سے ہو رہا ہے۔ نفرت کی تبلیغ کرنے اور زیادہ سے زیادہ ممکنہ سامعین حاصل کرنے کیلئے زیادہ تر معلومات کو غلط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں جغرافیائی حدو د و قیود کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے۔

یہاں پیشہ ور صحافیوں کی ایک نسل کو بھی عوامی معلومات کیلئے کسی تقریب کی رپورٹنگ یا تبصرہ کرتے ہوئے غیر اخلاقی عمل میں ملوث دیکھا گیا ہے۔ اخلاقی طور پر ایک صحافی کو ہمیشہ اپنی قوم اور اس کے لوگوںکیلئے اپنی خدمات کو ذمہ داری کے ساتھ دیکھنا چاہئے۔ ایک بار جب صحافی اقتداریا طاقت کیلئے اپنے پیشے کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ معاشرے کیلئے اپنی ذمہ داری کے احساس کے ترک کر دیتا ہے اور اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو قربان کر دیتا ہے۔

مختصراً صحافیوں کو اپنی تحریروں یا پروڈکشنز کے ذریعے رائے عامہ کو مثبت سمت میں ڈھالنے یا متحرک کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ انہیں ایسا رائے ساز یا تجزیہ کار بننے دیں جنہیں اپنے قارئین ،ناظرین و سامعین کا اعتماد حاصل ہو۔

بنیادی طور پر وقت اخلاقی صحافت کا تقاضہ کرتا ہے۔ ایک ایسی صحافت جواُتنا ہی پرواہ کرتی ہے جتنا وہ جانتی ہے۔ ایک چیز سب سے اہم ہے۔ ایک صحافی کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ وہ واقعہ سے زیادہ اہم نہ بن جائے اور اسے یہ بھی نہیں بتانا چاہئے کہ اُس کے قارئین،ناظرین و سامعین کو کیسا محسوس کرنا چاہئے اور کیا ردعمل ظاہر کرنا چاہئے۔

صحافی عوام کیلئے، عوام کااور عوام کی خاطر ہونا چاہئے ۔اُسے معاشرے کیلئے لکھنا چاہئے نہ کہ بہتر سرکیو لیشن ،زیادہ سے زیادہ ویوز اور پیسے کیلئے۔ اُسے سماجی ترقی کے بارے میں زیادہ فکرمندی ظاہر کرنی چاہئے نہ کہ پیسہ بنانے کیلئے طاقت یا اقتدار کا حصہ بننا چاہئے۔ ایک بار جب وہ ذمہ داری کے بجائے طاقت کا سوچ لے تو پھر آزادی صحافت کی ضمانت نہیں رہتی۔

آخر میں سوشل میڈیا انفلنسرز(social media influencers)یا’’فیس بک صحافیوں‘‘ کی ایک نسل کی طرف سے پیدا کردہ موجودہ گڑبڑ تیزی سے بڑھ رہی ہے اور صورت حال اس کے فریقین خاص طور پر حکام سے تادیبی نقطہ نظر کا مطالبہ کرتی ہے۔ڈیجیٹل میڈیا چینلوں کا زبردست استعمال اور ان کی دور دور تک رسائی صحافیوں کے کاموں کو منصفانہ طریقے سے منظم کرنے کیلئے ریگولیٹری اقدامات کو ناگزیر بناتے ہیں۔

دریں اثنا،مجھے یہ بات دہرانے دیں کہ یہ صورت حال صحافیوں کی لائسنسنگ کیلئے موزوں کیس بناتی ہے۔صحافیوں کے لائسنس کے بارے میں ایک بحث پہلے ہی شروع ہو چکی ہے جہاں ماہرین ایک ایسے نظام کی تیاری کر رہے ہیں جس کے تحت افراد کو صحافت کا پیشہ اختیارکرنے کی اجازت حاصل کرنے کیلئے کسی بیرونی اتھارٹی کو درخواست دینا ہو گی، جسے رد یا منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

یہاں ایکریڈیشن کو لائسنس کے طور پر نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ ایکریڈیشن صحافی کو خصوصی مراعات کی سہولت فراہم کرتی ہے، عام طور پر محدود علاقوں جیسے مقننہ، عدالتوں وغیرہ تک رسائی۔جبکہ لائسنسنگ پیشہ ورانہ اہلیت اور صحافت کی مشق کرنے کے پس منظر کے حامل حقیقی افراد کا خیال رکھے گی۔ اس کیلئے ایک ریگولیٹری اتھارٹی کی ضرورت ہے جہاں پیشہ ور صحافیوں کا ڈیٹا بیس بنایا جائے۔ ایک بار اس کے دائرہ کار میں آنے کے بعد حکومت صحافی برادری کیلئے مختلف فلاحی سکیمیں تیار کرسکتی ہے۔

گوکہ صحافیوں کو لائسنس دینا ایک ابتدائی خیال ہے، لیکن یہ جعلی اور خود ساختہ صحافیوں کو ختم کر دے گا جو لوگوں کے ذہنی سکون اور محنت سے کمائی گئی رقم کو چھیننے کے درپے ہیں۔ اس خیال پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے آزادی صحافت پر قدغن نہیں لگنی چاہئے۔دریں اثنا، جب ہم سوشل میڈیا انفلنسرز(social media influencers) کی بات کرتے ہیں، یقینا صحافیوں کو بھی اثر انداز یا انفلنسرزسمجھا جا سکتا ہے۔ یہاں صحافیوں سے مراد وہ افراد ہیں جنہوں نے اپنی اہلیت، عہدے یا اپنی مہارت کے موضوع کے بارے میں تجربے کی وجہ سے پہلے ہی عزت حاصل کر لی ہے۔

عمومی طور یہ عزت اُس جگہ کی شہرت کی وجہ سے ہوتی ہے جہاں وہ کام کررہے ہوتے ہیں۔ ایک صحافی اپنے اخبار یا میگزین کے کالموں میں جو مضامین لکھتا ہے،وہ اس کا ماہر نہیں ہوسکتا ہے لیکن اُسے اُس معتبر ادارہ ((چاہے وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک)کیلئے اس کی تحریری صلاحیتوں کیلئے احترام کیا جاتا ہے ۔

حاصل کلام یہ ہے کہ ایک سوشل میڈیا انفلنسر(social media influencer) صحافی نہیں ہو سکتا، لیکن ایک صحافی ایک انفلنسر(influencer) ہو سکتا ہے۔

(مضمو ن میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی اپنی ہیں،نہ کہ اس ادارے کے جس کیلئے وہ کام کرتے ہیں)