شمالی کشمیر میںجنگلی خنزیر وں کی اُدھم فصلیں بچانے کیلئے بحران کا تدارک ناگزیر

 ماضی قریب تک کشمیر خنزیروں کی نسل سے بالکل نامانوس تھا اور یہاں خنزیروں کا نام و نشان تک نہیں تھا لیکن اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے ۔اب کشمیر کے جنگلاتی علاقو ںمیں جنگلی سُوریا خنزیر بہتات میں پائے جارہے ہیں اور انہوںنے ان جنگلاتی علاقوں میں ادھم مچا کے رکھی ہے جہاں اب لوگوںکی کھڑی فصلیں بھی محفوظ نہیں رہی ہیں۔گزشتہ دنوں سے شمالی کشمیر سے مسلسل خبریں آرہی ہیں کہ شمالی کشمیر کے کئی دیہات میں جنگلی خنزیروںکی بڑھتی ہوئی آبادی کسانوں کیلئے مسائل پیدا کر رہی ہے کیونکہ یہ جانور وہاں کھیتوں میں کھڑی فصلوں کو تباہ کررہے ہیں جس سے کسانوںکا بھاری نقصان ہورہاہے۔دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ جنگلی سور سبزیوں کے علاوہ دھان اور مکئی سمیت دیگر فصلوں کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان کے بقول اگر اس پر فوری طور پر کچھ نہ کیا گیا تو نقصانات بہت زیادہ ہوں گے۔کسانوں کا کہنا تھا کہ ان کی محنت رائیگاں جا رہی ہے اور اگر یہی صورتحال رہی تو ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہو گا۔ انہوں نے متعلقہ حکام سے اس سلسلے میں مداخلت اور مدد کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کے مطابق یہ معاملہ مقامی حکام کی نوٹس میں لانے کے بعد بھی فصلوں کو جنگلی سوروں سے بچانے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ حکام کو اس بارے میں کچھ کرنا چاہئے اور کسانوں کی مدد کرنی چاہئے تاکہ مزید نقصانات سے بچا جا سکے۔عہدیداروں کو کسانوں تک پہنچنا چاہئے اور ان کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کیلئے جنگلی سوروں کے حملوں کا تدارک کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ جنگلی سور یا خنزیر مقامی نسل نہیں ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ جانور مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور میں یہاں لائے گئے تھے۔1980 کی دہائی کے وسط میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ یہاں سے مکمل طور پر غائب ہو چکے ہیں۔ اس جانور کو 2013 میں دوبارہ دیکھا گیا اور 2018 سے ان کی آبادی میں زبردست اضافہ ہوا۔ بڑھتی ہوئی آبادی فصلوں کیلئے خطرہ بن رہی ہے اور کسانوں کو مشکل وقت کا سامنا ہے۔رپورٹس کے مطابق جنگلی خنزیروں کی بڑی تعداد میں موجودگی نے محکمہ وائلڈ لائف کو ان پر تحقیق کرنے پر مجبور کر دیا ہے تاکہ ان کے ماحولیات پر اثرات معلوم ہو سکیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تک جنگلی خنزیروں کی سرکاری طور پر مردم شماری نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ محکمہ ان کی موجودگی کا مطالعہ کرے گا اور ان کیلئے انتظامی منصوبہ بنائے گا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ جنگلی خنزیررات کے وقت فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔جانور گروہوں میں حرکت کرتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں فصلوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 1980 کی دہائی کے وسط میں ان کا ناپید ہونا شاید ان کیلئے کشمیر میں ناسازگار موسمی حالات کی وجہ سے تھا۔لیکن اب موسمیاتی تبدیلی ان کی واپسی کی ایک وجہ ہو سکتی ہے کیونکہ کشمیر میں گزشتہ کئی برسوںسے سردیوں کے دوران بھی قدرے گرم درجہ حرارت دیکھا جا رہا ہے۔ماہرین نے مزید کہا کہ شمالی کشمیر میں جنگلی سوروں کی آبادی میں اضافہ اس لئے بھی ہو سکتا ہے کہ یہ حدمتارکہ کے قریب واقع ہے۔حکام کو متاثرہ دیہات کے کسانوں کے ساتھ مشاورت سے جنگلی خنزیروں کے ذریعے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے یا ختم کرنے کے طریقے تلاش کرنے چاہئیں۔ اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ آنے والے وقت میں کوئی سنگین شکل اختیار نہ کرسکے اور کسان راحت کی سانس لے سکیں۔نیز سائنسی بنیادوںپر اس کی تحقیق کی بھی ضرورت ہے کہ یہ خنزیر ہمارے ماحولیاتی نظام پر کس قدر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور ان کی بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے لئے کس قدر پریشانی کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ جب ایک واضح بلیو پرنٹ سامنے ہو تو عملی اقدامات کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔